اس کرم کا کروں شکر کیسے ادا

Sep 17, 2024

مروہ خان 

مروہ خان میرانی 
marwahkhan@hotmail.com

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ننانوے ناموں میں سے ایک نام الودود ہے 
 جس کے معنی ہیں بڑی محبت، بڑا پیار کرنے والا۔ سبحان اللہ 
 جب ہمارے خالق نے ہم پر مزید محبت، مہربانی اور رحمت نازل فرمانی چاہی تو اپنے محبوب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اس زمین پر اتارا۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی کامل محبت تمام انسانیت اور مسلمانوں کے لیے خصوصا ہر دکھی، بے سہارا، لاوارث، بے راہ، بھٹکے ہووں کے لیے سکون قلب کا باعث بن گئی۔ ہم سب مسلمان اس حدیث مبارکہ اور ایمان کے درجے سے بخوبی واقف ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قسم ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کو میری محبت اپنے باپ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ نہ ہو"- (بخاری)
لیکن اس ربیع الاول ہم یہ جانیں گے جس ذات سے اولین محبت رکھنا کامل ایمان ہے، اس ہستی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جان اور قلب کا جھکاو تاحیات کن کے اوپر رہا؟ 
ہم جیسے گنہگاروں کے اوپر۔۔۔۔ جو کہ ساری زندگی اس ناقدری اس ناشکری میں گزار دیتے ہیں کہ ہم سے تو کوئی پیار محبت کرنے والا ہی نہیں، اور کہتے رہتے ہیں کہ اس دنیا میں اب کوئی اخلاص ہی نہیں کوئی وفاداری نہیں ہر طرف دھوکہ دہی ہے۔ تو آج کی یہ تحریر ایسے تمام مسلمان اور انسانوں کے لیے ہے جن کو اپنی ذات پہ فخر کرنا چاہیے کہ ان سے محبت اور رحمت رکھنے والی ایک ایسی ہستی موجود ہے جو اپنی ذات کی خوشیوں کے اوپر ہماری بخشش کو ترجیح دیتی رہی۔ جب ہم یہ جان لیں گے کہ کوئی ہمارے لیے راتوں کو سجدوں میں روتا رہا ہے جو قیامت والے دن سجدے میں رب کے آگے جھکے رہیں گے جب تک کہ ہم دوزخ سے نکل کے جنت میں نہ چلے جائیں تو ایسی والہانہ محبت کرنے والی ہستی پانے کے بعد مایوسی و اداسی کیسی۔ بد نصیب بد قسمت ہیں وہ لوگ جو یہ جان کر انجان بن جاتے ہیں اور زندگی ایک صحرا میں گزار دیتے ہیں۔۔
 حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت ہم مسلمانوں سے اس قدر اخلاص سے بھرپور ہے کہ جس کی محبت کی گواہی خود اللہ جل و شانہ ھو نے قرآن میں بتلائی۔
"بے شک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر مہربان رحمت فرمانے والے ہیں"۔ (سورہ توبہ: 128)
ایسا وفا سے بھرپور پاکیزہ جذبہ کے ہمارے رب نے اس بات کو لازم سمجھا کے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اس خوبصورت محبت کی اخلاص ہم سب کو معلوم ہونی چاہیے۔ اللہ اکبر
حضور صلی اللہ علیہ کی محبت کا اظہار سب سے پہلے اس بات سے شروع ہوتا ہے کہ ہر نبی کی ایک مقبول دعا ہوتی ہے جو کہ لازمی اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان کی زندگی میں قبول و منظور فرماتا ہے۔سب انبیاء اسلام نے اپنی حیات میں ان دعاوں کو استعمال کر لیا لیکن قربان جائیے اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کہ انہوں نے اپنی یہ دعا ہماری مغفرت کے لیے آخرت کے لیے سنبھال لی۔ یہاں تک کہ ان کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات پر غم کی حالت میں ہونے کے باوجود یہ دعا نہ فرمائی کہ یا ربّ میرے بیٹے کو مجھے واپس لوٹا دے بلکہ صبر اختیار کیا اس بات پر کہ ان کی امت کا ہر فرد جنت کی فضا چھک سکے۔ 
خوش قسمتی کی یہ انتہا ہے ہم مسلمانوں پر کہ ہماری ذات اور جان کے سب سے زیادہ قریب کون؟ اللہ تعالیٰ کے اپنے محبوب سرور کونین حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔
"نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مومنوں کے لیے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں"- (سورہ احزاب: 6)
اس آیت کے مفہوم کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے رشتہ واضح کیا گیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو قربت کا رشتہ ہے ، وہ مسلمانوں کی اپنی ذات سے بھی زیادہ اہم ہے۔ ہم جیسی حقیروں، فقیروں کی قسمت کہ جس کی ذات کے ساتھ کیسی جان کی قربت جڑ گئی اللہ اکبر۔ ساری زندگی اس کرم کا شکر ادا کرتے نہ تھکیں جو کرم رب العزت نے ہمیں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا غلام و امتی بنا کر ہم پر کیا ہے۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کا وہ واقعہ کہ جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بتلایا کہ یہودیوں نے ان کو گھیر لیا اور ان سے عجیب عجیب سوال کیے کہ تمہارا نبی تمہیں طہارت و پاکیزگی کے بارے میں بھی بتاتا ہے کیا؟ جس کے جواب میں حضرت سلمان فارسی نے فرمایا تو یہ باتیں ایک نبی ہی بتا سکتا ہے اس پہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے بجا فرمایا ہے :” بلاشبہ میں تمہارے لیے والد کی مانند ہوں ، تمہیں سیکھتا ہوں"۔ (مسند احمد: 510)
اب جو واقعہ میں بیان کرنے جا رہی ہوں یہ میرا دعوی ہے کہ سرکار دو عالم کی محبت میں ہر مسلمان کی انکھ کو اشکبار کر دے گا۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی االلہعنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک دن جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوشگوار مزاج میں پایا:
تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے میرے حق میں دعا فرمائیں ،
تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! عائشہ کے اگلے پچھلے، ظاہری و باطنی، تمام گناہ معاف فرما ،یہ سن کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اتنی ہنسیں یہاں تک کہ ان کا سر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں آ پڑا ،اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میری دعا تمہیں اچھی لگی ہے؟
انہوں نے عرض کیا : یہ کیسے ہو سکتاہے کہ آپ کی دعا مجھے اچھی نہ لگے۔ پھر رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ کی قسم! بے شک ہر نماز میں میری یہ دعا میری امت کے لئے ہے-(5/ 324).
یومِ قیامت سب سے عظیم شفاعت کرنے والے حضرت محمد ﷺ ہوں گے۔ اس دن مسلمان اور غیر مسلم سب ان کے مقام "مقامِ محمود" کو پہچانیں گے، یعنی ہر جان ان کی تعریف کرے گی، سبحان اللہ۔ ہر کوئی اس دن کسی ایسے شخص کی تلاش کرے گا جو ان کی طرف سے شفاعت کرے تاکہ حساب کتاب شروع ہو سکے، لیکن کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے جانے کے لیے تیار نہیں ہو گا اور آخرکار سب حضرت محمد ﷺ کے پاس جائیں گے۔
وہ فرمائیں گے: "یہ میرا کام ہے میری ذمہ داری ہے۔"
حضرت محمد ﷺ نے ہمیں بتایا کہ وہ عرش کے نیچے سجدہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ایسے الفاظ اور دعائیں سکھائیں گے جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں سنی ہوں گی۔
اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: "اے محمد ! اپنا سر اٹھاو، شفاعت کرو، اور تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ مانگو، اور تمہیں دیا جائے گا۔" وہ اپنی امت کے خاص لوگوں کے لیے خاص شفاعت کریں گے۔ وہ اپنا سر اٹھائیں گے اور سارا دن اللہ تعالیٰ کے پاس واپس جاتے رہیں گے، سجدہ کرتے رہیں گے اور شفاعت کرتے رہیں گے۔
پھر وہ فرمائیں گے: "اے میرے رب! میری امت۔" پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے:
"اے محمد ! اپنی امت کے ان لوگوں کو داخل کرو جو حساب کتاب میں نہیں آئیں گے۔ انہیں جنت کے دائیں دروازے سے داخل کرو۔" یہ لوگ قیامت کے دن کے بہترین لوگ ہوں گے کیونکہ وہ شفاعت کی وجہ سے بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔
حضرت محمد ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا:
"جو شخص اذان سن کر کہے، اے اللہ اے اس دعوت کامل اور ہمیشہ اس کے نتیجے میں ادا ہونے والی نماز کے رب تو محمد کو وسیلہ اور فضیلت اور بلند درجہ عطا فرما اور ان کو اس مقامِ محمود پر پہنچا دے جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا اور ہم کو قیامت کے دن ان کی شفاعت سے بہرہ مند فرما اور بیشک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا، تو میری اس کے لیے شفاعت قبول ہوگی قیامت کے دن۔" (بخاری)
یہ دعا پڑھنے کا مقصد کہ ہمارے پیارے آقا کی عاجز و انکساری کے انہوں نے اپنی امت کو فرمایا کہ میرے حق میں دعا کرنا کہ یہ مقامِ محمود اور وسیلہ و فضیلت جو آخرت میں کسی ایک شخص کو عطا ہونا ہے وہ اللہ رب العزت ان کو ہی عطا کرے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
"اے اللہ کے رسول! قیامت کے دن میرے لیے شفاعت کریں!" پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "میں انشاءاللہ کروں گا۔"
میں نے کہا، "میں کہاں تلاش کروں اور آپ کو کہاں پاوں گا؟"
انہوں نے فرمایا، "مجھے میزان پر تلاش کرنا!"
میں نے کہا، "اگر میں آپ کو وہاں نہ پاوں تو پھر کیا کروں؟"
انہوں نے فرمایا، "پھر مجھے صراط پل پر دیکھو!
"اگر میں وہاں نہ پاوں تو کیا کروں؟"
انہوں نے کہا، "پھر، کوثر کنارے (حوض کثر) کے پاس دیکھو۔ میں بیشک ان تین مقاموں میں سے ایک میں ہوں گا۔" (ترمذی)
آخر میں، وہ امتی کے لیے بھی شفاعت کریں گے جن کی اعمال اچھے نہیں ہوں گے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بے شک! میں نے اپنی شفاعت کو اپنی امت کے بڑے گناہگاروں کے لیے قیامت کے دن کے لیے محدود کر رکھا ہے۔"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا مانگتے رہیں گے: "اے میرے رب، جن کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہے ان کو بھی جنت میں داخل فرما اور اللہ عزوجل عطا فرمائے گا" پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھیں گے: "اے میرے رب! جنت میں ان کو بھی داخل فرما جن کے دلوں میں اس سے بھی کم ایمان ہے" تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبول فرمائے گا۔
اللہ اکبر کبیر 
اپنا خلوص،وفاداری، محبت عقیدت، جان اس پاک ذات پہ نچھاور کیجئے جو اپنی حیات طیبہ میں اپنی محبت کی وفا آپ کو دکھا چکے ہیں۔ اور آخرت میں جب کوئی ماں باپ کوئی رشتہ کوئی تعلق کام نہیں آئے گا۔ تب سب مسلمانوں کو اور ہمیں اس بات کی سمجھ لگ جائے گی کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے وفاداری ہی ہمارا دنیا و آخرت کا اثاثہ تھی۔ 
اسی بنیاد پہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت و عقیدت سب رشتوں سے اولین رکھی گئی ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالی کے رازوں میں سے ایک راز کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت سے زیادہ کسی اور محبت میں انتہا کی حد تک قدر و وفا نہیں ہے بھلے وہ ہمارے سگے ماں باپ ہی کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ قیامت کے دن ایسی افرا تفری ہوگی کہ ماں اپنی سگی اولاد تک کو بھول جائے گی نفسا نفسی کا عالم ہوگا تو دوسری طرف "امتی امتی" کی محبت و وفا۔۔۔۔۔ اس کا اختیار آپ کے ہاتھ۔۔۔
اس کامل محبت وفاداری کا حصہ حاصل کرنے کے لیے آپ کتنی حد اور انتہا کی کوشش کرتے ہیں اپنی حیات میں جو آپ کو میسر ہے۔
ایسی چشم کرم کی ہے سرکار نے 
دونوں عالم میں ان کو غنی کر دیا
صدقے جاوں نیازی میں لجپال کے 
ہر گدا کو سخی نے سخی کر دیا
اس کرم کا کرو شکر کیسے ادا

مزیدخبریں