26 ویں مجوزہ آئینی ترمیم پر نااتفاقی اور اتفاق رائے

 گلوبل ویلج                
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
پارلیمان کا کام ہی آئین و قانون سازی ہے۔قبل ازیں 1973 کے بعد آئین میں 25 ترامیم ہو چکی ہیں۔ان میں سے کہی ناگزیر اور کئی اس دور کے حکمرانوں نے اپنے اپنے مفادات کے لیے کیں۔پرسنز سپیسیفک تبدیلیاں کبھی بھی پائیدار نہیں ہو سکتیں۔کل آئین میں 26 میں ترمیم کی کوشش کی گئی۔اس کا ایک ہی مرکزی نقطہ تھا کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کر دی جائے۔26 ویں مجوزہ آئینی ترمیم میں اور کیا کچھ ہے اس کے بارے میں وزیراعظم اور وزرا سمیت کسی کو ترمیم کے ایوان میں آنے تک کچھ معلوم نہیں تھا۔وزیر قانون جس کی ذمہ داری ایسے مسودے کو حتمی شکل دینا ہوتی ہے ان کی طرف سے ایک موقع پر کہا گیا کہ مجھے ترمیم کا مسودہ مل گیا ہے۔
وزراءکی طرف سے بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ملاقات کی گئی انہوں نے مسودہ طلب کیا تو ان کے سامنے بھی مسودہ نہیں رکھا گیا مولانا فضل الرحمن کے ساتھ وزیراعظم شہباز شریف وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر داخلہ محسن نقوی نے متعدد بار ملاقات کی اور ان کو ترمیم میں حکومت کا ساتھ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے بھی ترمیم کا مسودہ طلب کیا گیا تو ان کو بھی یہ مسودہ نہیں دیا گیا۔یہ اپنی جگہ پر ایک اسراریت ہے کہ اس مسودے کو اتنا سیکرٹ کیوں رکھا گیا۔اختر مینگل سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے پہلے مسودہ طلب کیا اس کے بعد انہوں نے کہا کہ 2 ہزار لاپتا افراد کو رہا کیا جائے تو میں ترمیم کی حمایت کرنے کے لیے تیار ہوں۔اختر مینگل اپنی قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ سپیکر کو جمع کروا چکے ہیں۔
قومی اسمبلی اور سینٹ میں یہ ترمیم چھٹی کے دن لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ہفتے کو ترمیم قومی اسمبلی اور سینٹ میں پیش کی جانی تھی لیکن اس روز پیش رفت نہ ہو سکی یقین تھا کہ اتوار کو یہ ترمیم قومی اسمبلی اور سینٹ میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ منظور بھی کر لی جائے گی۔ لیکن رات کو ساڑھے گیارہ بجے چند منٹ کے لیے اجلاس منعقد ہوا جس میں اعلان کیا گیا کہ اگلے روز یعنی پیر کو ساڑھے 12 بجے پھر اجلاس ہوگا۔جس طریقے سے ترمیم پارلیمان میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی اس سے پوری دنیا میں پاکستان کا اور پاکستان کے نظام کا مذاق اڑتا ہوا نظر آیا۔ترمیم چوری چھپے نہیں بلکہ عوام کو اعتماد میں لے کر کی جاتی ہے یہی آئینی اور قانونی طریقہ کار ہے مگر یہاں تو کسی کو مسودہ تک نہیں دکھایا گیا اور پورا زور لگایا گیا کہ ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کر لی جائے جو حکومت کے پاس موجود بھی نہیں ہے۔ اس ترمیم کے لیے حکومت کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے، یعنی قومی اسمبلی میں حکومت کے پاس 224 ووٹ ہونے چاہئیں جبکہ سینیٹ میں 64 ووٹ درکار ہیں۔ اس وقت تک قومی اسمبلی میں حکومت کے پاس 211 اور سینیٹ میں 54 ارکان ہیں۔ یوں ایوانِ زیریں میں حکومت کو 13 اور ایوانِ بالا میں 10 مزید ووٹ درکار ہیں جن کے بغیر مجوزہ آئینی ترامیم پیکیج کی منظوری ممکن نہیں۔ حکومت مسلسل اس تگ و دو میں لگی ہوئی ہے کہ کسی بھی طرح سے وہ اتنے ارکان کو اپنے حق میں کر لے کہ وہ آسانی سے مجوزہ ترامیم منظور کراسکے۔
قومی اسمبلی اور سینٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے حکومت کو مولانا فضل الرحمن کے ووٹوں کی ضرورت تھی۔مولانا فضل الرحمن کے پاس مسلم لیگ نون کے اعلی سطحی وفد جاتے رہے تحریک انصاف نے بھی مولانا فضل الرحمن کو اپنا ساتھ دینے پر قائل کرنے کی کوشش کی۔کہا جاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو ایک برادر اسلامی ملک کے طرف سے بھی ترامیم میں ساتھ دینے کے لیے کہا گیا۔مولانا کے اس ملک کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں مولانا فضل الرحمن نے اس کی حامی بھر لی لیکن معاملہ اس وقت بگڑ گیا جب کچھ وزراءکی طرف سے کہا گیا کہ مولانا تو ہمارے ہاتھ میں ہیں یہ کہیں جانے والے نہیں ہیں۔ اس پر مولانا اشتعال میں آئے اور پھر جو کچھ ہوا وہ میڈیا کے ذریعے سب کے سامنے ہے۔
آئین میں ترمیم اس طرح نہیں ہوتی جس طرح یہ حکومت کرنا چاہتی ہے۔تحریک انصاف گو کہ اس ترامیم کی کئی شقوں مخالف ہے مگر اس کے لیڈر کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ حکومت بات کرے کچھ ہم اپنی تجاویز دیتے ہیں کچھ ان کی تجاویز پر بات کرتے ہیں مگر حکومت تو مسودہ تک دکھانے کو تیار نہیں ہے تو اس معاملے میں اپوزیشن کے ساتھ مزید کیا پیشرفت ہو سکتی ہے۔
حکومت کی طرف سے قاضی فائز عیسی کو بطور چیف جسٹس تین سال توسیع کے لیے کوشش کی گئی مگر مولانا فضل الرحمن جن کے سامنے ترمیم کا مسودہ قومی اسمبلی میں ترمیم پیش ہونے سے قبل تک نہیں رکھا گیا تھا اور ان کو بہت سی ترامیم کے حوالے سے آگاہ کر دیا گیا تھا مولانا فضل الرحمن کسی صورت بھی ایکسٹینشن کے حق میں نہیں تھے۔تحریک انصاف بھی اس معاملے میں مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ہے یا مولانا فضل الرحمن اس معاملے میں تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔باقی ترمیمی مسودے میں جو کچھ ہے اس میں سے بہت کچھ ایسا ہے جس پر تحریک انصاف اور مولانا فضل الرحمن اتفاق کر سکتے ہیں۔ترمیم میں زیادہ سے زیادہ جتنا بھی اتفاق رائے ہو سکتا ہے وہ ہونا چاہیے بلکہ تو ایسی ترامیم متفقہ طور پر منظور کی جانی چاہئیں۔
مولانا فضل الرحمن ترامیم میں حکومت کا ساتھ دیتے ہیں تو بھی دو تہائی اکثریت نہ قومی اسمبلی میں بنتی ہے نہ سینٹ میں بنتی ہے۔ نمبر پورے کرنے کے لیے تحریک انصاف کے کچھ لوگوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کی گئی ہے۔جس کے راستے میں ڈیفیکشن کلاز آ جاتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس کلاز کو بے اثر کرنے کے لیے بھی مجوزہ آئینی ترمیم میں ایک شق رکھی گئی ہے۔اگر ایسا ہی ہے تو یہ ان کے خلاف بھی جا سکتا ہے جو شد و مد سے آئین میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر تحریک انصاف کے لوگ فلور کراسنگ کر کے ووٹ ترمیم کے حق میں دے دیتے ہیں تو مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمن کے کچھ لوگ بھی ترمیم کے خلاف ووٹ ڈال سکتے ہیں۔لہٰذا بہت اچھا ہوتا کہ ایسی ترمیم اتفاق رائے سے منظور کی جاتی۔
کہا جاتا ہے کہ یہ سارا کچھ عمران خان کے خلاف کیا جا رہا ہے۔تحریک انصاف کو مزید کمزور کرنے کے لیے ایسی ترامیم کی جا رہی ہے۔کچھ لوگ اس کو لندن پلان کا حصہ بھی قرار دے رہے ہیں۔لندن پلان کیا حقیقت تھی یا یہ ایک تصور اتی پلان تھا اس کے بارے میں بھی دو رائے موجود ہیں۔ویسے عمران خان آج اس پوزیشن میں آ چکے ہیں کہ وہ جب چاہیں لوگوں کو سڑکوں پر لا کر حالات میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔اگر وہ مثبت تبدیلی لاتے ہیں تو اسے سراہا جانا چاہیے، منفی تبدیلی کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی۔حکومت بہرحال اتفاق رائے سے جو بھی چاہتی ہے آئین میں ترمیم کرنے کی کوشش کرے۔اگر زور زبر دستی سے ایسا کیا گیا تو سیاسی اور معاشی استحکام جو پہلے ہی سوالیہ نشان بنا ہوا ہے وہ مزید مخدوش ہو سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن