رقیہ غزل
وطن عزیز کے موجودہ حالات کسی سے نہیں چھپے ہوئے کہ سیاسی ،معاشی اور قومی ہر محاذ پر ہمیں شکست کا سامنا ہے لیکن ہماری ترجیحات نہیں بدلتیں اور اس قدر ہوس اقتدار میں مست مئے پندار ہیں کہ خسارہ بھی کامیابی کا زینہ دکھائی دیتا ہے ۔اسی غیر سنجیدگی کو محسوس کرتے ہوئے حکومت کے قریبی ساتھی جو کہ حکومتی ٹیم کا حصہ بھی تھے معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے حکومت سے اپنی راہیں جدا کر لی ہیں اور خطرے کی گھنٹی بھی بجا دی ہے۔ دوسری طرف حکومت وقت (حکمران اتحاد) آئینی ترمیم لانے کے لیے سر جوڑے بیٹھے ہیں اور ایک دوسرے کو راضی کرنے کے لیے دوڑیں لگی ہوئی ہیں یعنی کرسی بچانے کے لیے آئین و ریاست سے کھلواڑ کرنے کو بھی تیار ہیں ۔حکمرانوں کی ترجیحات نے آخری شمع بھی بجھا دی ہے جس کی ضیا چار برسوں کی تلخ نوائیوں اور پریشانیوں کے بعد بھی اچھے کی امید دلاتی تھی ۔۔ان حالات پر باقی احمد پوری نے کیا خوب چوٹ کی ہے :
سوچا تھا کہ تو آئے گا تعمیر کرے گا
ہم لوگ اسی شوق میں مسمار ہوئے ہیں
درحقیقت سیاسی رسہ کشی نے پورے نظام کو مفلوج کر رکھا ہے ۔کارکردگی سب کی صفر ہے مگر ایک دوسرے کی نا اہلیوں اور نا دانیوں کی فائلیں کھولے بیٹھے رہتے ہیں کہ فلاں نے یہ کر دیا ،فلاں نے وہ کر دیا مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ وہ کیا کر رہا ہے ۔۔!پر تعیش ماحول میں بیٹھے پالیسی سازوں کو کیا خبر کہ عوام گزارہ کیسے کر رہے ہیں ۔ان کو تو اپنی عیاشیوں اور مفادات کے پورا نہ ہونے کی فکر کھائے جارہی ہے۔ گمان تھا کہ حکومت اور حکومتی کارندوں کے اضافی اخراجات اور پروٹوکول کو ختم کر کے عوام کو ریلیف دیا جائے گا لیکن اس کی بھی کلی کھل گئی کہ معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے یہ کہہ کر حکومتی کمیٹی سے استعفٰی دے دیا کہ پاکستانی معیشت کسی طور بھی صحیح سمت میں نہیں ہے ، مصنوعی طریقوں سے کام کر رہی ہے ۔بد قسمتی کے ساتھ پاکستان میں کبھی بھی ایسی پالیسیاں نہیں بنائی گئیں جن کا براہ راست فائدہ عوام کو ملتا ۔اور ملکی معیشت میں بہتری آتی ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی کو پرواہ نہیںبلکہ جو اعداد و شمار حکومت اور سرکاری ادارے بتا رہے ہیں وہ حقائق کے منافی ہیں اور زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتے کیونکہ حکومت اپنے اخراجات کم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔حکومت کی توجہ صرف چھوٹے ملازمین کی تعداد کم کرنے پر ہے تاہم چھوٹے ملازمین کی تعداد کم کرنے سے اخراجات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔مزید انھوں نے ساری تباہی کے ذمہ داران ،صنعتوں اور اداروں کو بند کرنے کے پیچھے مفادات کا بھی ذکر کیا ۔الغرض انھوں نے کھلے الفاظ میں کہا کہ اگر پالیسی میکرز نے اپنی سمت درست نہ کی تو ملک جو کہ دیوالیہ ہو رہا ہے مکمل ہو جائے گا ۔یہ انتہائی الارمنگ دعوی تھا اور ایسے دعوے پہلے بھی ہم اسمبلیوں میں سن چکے ہیں لیکن وفاقی حکومت نے نامور ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے ان کی رائے کو رابطے یا سمجھ بوجھ کے فقدان پر مبنی قرار دے دیا ۔یعنی دوسرے لفظوں میں ”نادان “ کہہ کر بات ہی ختم کر دی جبکہ انھوں نے ساری باتیں دلائل کے ساتھ کیں تھیں اور اپنے انٹڑویوز میں گذشتہ تمام حکومتوں کی معاشی پالیسیوں اور ناکامیوں کا احاطہ کر رہے ہیں تو ایسے شخص کو جو کہ مکمل آگاہی رکھتا ہے کسی بھی بنا پر نادان کہہ دینا سوالیہ نشان ہے کیونکہ اس کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایسے کم فہم ماہر معاشیات کو تجربہ کاروں نے ساتھ کیوں رکھا ہوا تھا جبکہ سب جانتے ہیں کہ ملکی معیشت کی ناﺅ ہچکولے کھا رہی ہے ،صنعتیں اور ادارے بند ہونے سے مسلسل چھوٹے ملازمین بیروزگار ہورہے ہیں مگر جائز و ناجائز ٹیکسوں اور مہنگائی میں کمی نہیں آرہی ۔۔ہمیں ماننا ہوگا کہ بنگالی صاحب کی یہ بات ٹھیک ہے کہ چھوٹے ملازمین مسلسل بیروزگار ہو رہے ہیں اور کاروبار تقریباًٹھپ ہوچکے ہیں ۔امداد و ٹیکس کے باوجو یہ حال ہے کہ ہر دوسرا شخص پریشان اور بدحال ہے اور ملک چھوڑنے کے سوا کسی کے پاس کوئی چارہ نہیں رہا اور کرتادھرتا کوکرسی بچانے کی فکر سونے نہیں دے رہی ۔۔
کون نہیں جانتا کہ مولانا فضل الرحمن کے آستانے پر بڑی رونق ہے :حکمران اتحادچاہتا ہے کہ مولانا ان کا ساتھ دیں جبکہ وہ مسلسل آئین و ریاست کے ساتھ ذاتی مفاد کے لیے مذاق کرنے کو تیار نہیں چونکہ دیرینہ مطالبات پورے نہ ہونے کیوجہ سے خفا ہیں تو اب وہ وقت آگیا ہے کہ کرسی بچانی ہے تو مولانا کی بات ماننا ہوگی تو سیاسی بازیگر مل جل کر آئینی مفاد کو نیا رنگ دے دیں گے بظاہر یہی لگے کہ ملکی مفاد میں ایسا کیا گیا ہے لیکن اس آئین کی رو سے جو بھی ہوگا وہ سوالیہ نشان بن جائے گا !کیونکہ اس نازک وقت میں آئینی ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آئی جبکہ اعلیٰ عدلیہ کے سبھی جج صاحبان ملک و قوم کے وقار کی ضمانت ہوتے ہیں اور ریاست سے وفاداری کا حلف لیتے ہیں پھر ان کی کریڈیبیلٹی کو مشکوک کرتے ہوئے ایسی حرکتیں کرنا کسی طور مناسب نہیں ہے ۔یعنی ہمارے سیاستدانوں کو ملکی وقار و سلامتی کے ادارے بھی سیاسی چاہیے جیسے پولیس کو سیاسی بنا کر ریاست کو جنگل بنا دیاگیا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون چلتا ہے ۔اب کہنا پڑے گا کہ مفاداتی آئینی سیاسی ہلچل ثابت کرتی ہے، ہمارے حکمران ملک و قوم کی حفاظت کے قابل نہیں رہے ، اپنی اپنی پڑی ہے اور موت کسی کو یاد نہیں ہے ۔ کہتے ہیں عوام ناشکرے ہیں اور ان کی برین واشنگ کی گئی ہے کیونکہ دشمن ملک کو ترقی کی راہ پر نہیں دیکھ سکتا ۔۔
پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک بادشاہ نے رات کو گیدڑوں کی آوازیں سنیں تو صبح اپنے وزیروںسے پوچھا کہ آجکل گیدڑ بہت شور کرتے ہیں جس سے نیند خراب ہوتی ہے‘ کیا وجہ ہے ؟ وزیر نے کہا : جناب ! کھانے پینے کی کمی ہوگی اسلیے فریاد کر رہے ہیں تو بادشاہ نے حکم دیا کہ بہترین بندوبست کیا جائے تو سارا سامان اور پیسے وزیروں اور درباریوں نے آپس میں بانٹ لیے مگر رات پھر آوازیں آئیں تو بادشاہ نے صبح پھر استفسار کیا کہ کیا سامان نہیں بھجوایا گیا ؟تو وزیر نے کہا : جناب ! سردی کیوجہ سے شور کر رہے ہیں۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ بستروں اور دیگر ضروری چیزوں کا انتظام کیا جائے تو صبح پھر وزیروں اور درباریوں کی موجیں لگ گئیں مگر رات ہوئی تو پھر وہی آوازیں آنا شروع ہوگئیں تو بادشاہ نے فوری طور پر وزیر کو طلب کیا اور کہا کہ تم نے بندوبست کیوں نہیں کیا ؟ وزیر نے کہا کہ میں ابھی پتہ کر کے آتا ہوں اور کچھ دیر بعد آ کر کہا: بادشاہ سلامت !وہ شور نہیں کر رہے بلکہ آپ کا شکریہ ادا کر رہے ہیں اور اب کرتے ہی رہیں گے کیونکہ انھیں ان کی اوقات سے زیادہ مل گیا ہے ۔یہ سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا اور وزیر کو انعام و کرام دیکر رخصت کیا ۔۔یہاں بھی یہی مسئلہ ہے کہ یہی رپورٹ دی جاتی ہے کہ سب اچھا ہے تبھی وزیراعظم کہتے ہیں کہ ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے لیکن کب تک یہ ایوانوں سے ڈھابوں تک کا فاصلہ جلد ختم ہوجائے گا کیونکہ اب تو قریبی ساتھی بھی چیخ رہے ہیں کہ :
یہ تم کس بے حسی کی دوڑ میں الجھے ہوئے ہو
عزیزو ، اب تو آنگن میں دھواں تک آگیا