ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نوید
zahidnaveed@hotmail.com

یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو کے وقتی عروج کا ہے۔ اس زمانہ کے نوجوان سوشلزم سے بہت متاثر تھے۔اور بھٹو نوجوانوں کی اکثریت کے پسندیدہ سیاسی ہیرو تھے۔برابر میں مولانا مودودی اور ان کے مقلد نوجوان تھے چنانچہ ایک طرف بھٹو کے نوجوان پییپلز سٹوڈنٹ فیڈریشن کی صورت میں جمع تھے اور ایشیا سرخ ہے کہ نعرے لگاتے تھے تو دوسری طرف مولانا کے با ریش جوشیلے نوجوان اسلامی جمعیت طلبہ کی شکل میں نعرہ زن تھے کہ ایشیا سبز ہے عام طور پر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ان کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوتا تھا۔ اس زمانے میں پیپلز پارٹی اپنا منشور پیش کر چکی تھی جس کا چہرہ یہ تھا کہ اسلام ہمارا دین سوشل ازم ہماری معیشت جمہوریت ہماری سیاست ہے یہ دلکش نعرے اسوقت کی نوجوان اکثریت کو بہت پسند ?یے مزدور کسان ہاری نے بھی اس منشور کی حمایت کی۔الیکشن ہو? اور پیپلز پارٹی واضح اکثریت کے ساتھ مغربی پاکستان کے دو صوبوں پنجاب اور سندھ میں جیت گئ۔ اس دوران میں ملکی سیاسی صورتحال نے بڑی کروٹیں لیں ۔ مگر بھٹو نے پارٹی منشور پر عمل در?مد کا فیصلہ کر لیا اور معاشی اصلاحات کرکے سوشلسٹ معیشت کی طرف قدم بڑھا دیا۔ کچھ لوگوں کے مطابق بعد کے حالات نے یہ ثابت کر دیا کہ نیک نیتی اپنی جگہ لیکن صنعتوں بینکوں اور دیگر اداروں کو اس وقت قومی تحویل میں لینا ایک عاجلانہ فیصلہ تھا کیونکہ اسوقت پاکستان نے صنعتی میدان مین ابھی قدم ہی رکھا تھا ملکی سرمایہ دار جن کو عرف عام میں ایوبی دور کے بائیس خاندان کہا جاتا ہے ملک کے طول و عرض میں صنعتیں لگا رہے تھے۔مگر ان کے خلاف پراپگنڈا ہونے لگا کہ یہ خاندان دونوں ہاتھوں سے ملکی وسائل لوٹ رہے ہیں۔اس زمانے میں یہ جملہ زباں ذد عام تھا کہ امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب غریب تر۔ بس پھر کیا تھا غریب لٹھ لے کر امیروں کے پیچھے پڑ گئے۔دکھ کی بات یہ کہ نہ تو ہم نے ایوب خاں کو اتنا وقت دیا کو وہ سبز انقلاب کا خواب پورا کرکے ملک میں صنعت سازی کو فروغ دیتے۔نہ بھٹو کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنے سوشلسٹ ایجنڈے پر مکمل عمل کرکے کوئی مثبت نتائج سامنے لاتے۔ یہاں ہر درخت کو بار ور ہونے سے پہلے ہی کاٹ دیتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال نواز شریف کی سابقہ حکومت ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نواز شریف نے برملا کہا تھا کہ ملک میں اندھیرے ختم ہو گئے لوڈشیذنگ اب ماضی کی بات ہے اب ہم آپ کو بجلی بھی دیں گے اور سستی بجلی دیں گے مگر نواز شریف کو اپنا کام مکمل کرنے کی مہلت نہ ملی ۔ اتنی سی بات ہے کہ وطن عزیز میں بی وقت حکومتیں ختم کرنے کی ایسی رسم پڑی ہے جس نے ہمیں تباہ و برباد کردیا مگر ہم بز نہیں رہے۔عمرانی حکومت کا خاتمہ بھی اسکی ایک مثال ہے۔ التجا ہے کہ اب موجودہ حکومت کو برداشت کر لو اور اسے ہی کچھ کام کر لینے دو!!

ای پیپر دی نیشن