حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کا گھر تعمیر کیا تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی کہ اے اللہ نبی آخرالزمان کو ہماری نسل میں ظاہر فرما۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ”اے ہمارے رب اور ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیج جو ان پر تیری آیتوں کی تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب پاکیزہ فرما دے بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے “۔( سورة البقرة )
حضور نبی کریم ﷺ کا خاندان و نسب و شرافت میں تمام دنیا کے خاندانوں سے افضل و اعلی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کے دشمن کفار مکہ بھی اس کا انکار نہیں کرتے تھے۔ حضرت ابو سفیان نے جب وہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے بادشاہ روم کے سامنے اس بات کا اقرار کیا کہ نبی اکرم ” عالی خاندان “ ہیں۔ ( بخاری شریف)
اس وقت وہ آپ کے دشمن تھے اور چاہتے تھے کہ اگر ذرہ برابر بھی کوئی ایسی بات ملے جس سے آپ کی ذات مبارکہ پر کوئی عیب لگا کر بادشاہ روم کی نظروں سے آپ کے وقار کو گرا دے۔
مسلم شریف کی روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ”کنانہ “ کو برگزیدہ بنایا اور ”کنانہ “ میں سے” قریش“ کو اور قریش میں سے بنی ہاشم کو منتخب فرمایا۔ یعنی حضور نبی کریم ﷺ کا خاندان اس قدر بلند و بالا ہے کہ کوئی بھی حسب و نسب والا آپ کی مثل نہیں۔
جب پورے عالم میں ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی ، آداب معاشرت بالکل ختم ہو چکے تھے ، غلاموں اور عورتوں کو بالکل بھی عزت کے قابل نہیں سمجھا جاتا تھا اور ہر طرف ظلم کا بازار گرم تھا تب اللہ تعالی نے اپنا کرم فرمایا اور اپنے محبوب نبی کریمﷺ کو مبعوث فرما کر ساری تاریکیوں کو روشنی میں بدل دیا۔ عورتوں اور غلاموں کو ان کا مقام مل گیا اور غریبوں اور یتیموں کو سہارا مل گیا ہر س±و نور ہی نور چھا گیا سب کے چہرے پر رونق بکھر آئی۔
حضور نبی کریم ﷺ واقعہ اصحاب فیل کے تقریبا ً پچپن دن بعد 12 ربیع الاول کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ تاریخ عالم میں یہ دن بہت برکت اور عظمت والا ہے۔ کیونکہ اس دن عالم ہستی کے ایجاد کا باعث ، گردش لیل ونہار کا مطلوب ، تمام جہان کے بگڑے کاموں کو سنوارنے والا، حبیب خدا ، خاتم الرسل ، خاتم الانبیا ئ، احمد مجتبی اس دنیا میں رونق افروز ہوئے۔ پیدائش کے وقت آپ کی ناف مبارک کٹی ہوئی ، ختنے بھی ہوئے ہوئے اور آپ خوشبو میں بسے ہوئے تھے۔