نبی اکرم ﷺکے بارے میں غیر مسلم نقطہ نظر

حضرت محمد (ﷺ) کی زندگی اور شخصیت کو نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ غیر مسلم مورخین، مفکرین، ادیبوں، اور علما کے درمیان بھی احترام اور تعریف کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ ان کی زندگی کا معروضی مطالعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کا پیغام تمام مذاہب، ثقافتوں، اور جغرافیائی حدود سے ماورا ہے۔ انہیں صرف ”مسلمانوں کے لیے رحمت“ (رحمت المسلمین) ہی نہیں بلکہ '”پوری کائنات کے لیے رحمت“ (رحمت اللعالمین) سمجھا جاتا ہے۔
اسکاٹ لینڈ کے مورخ اور فلسفی تھامس کارلائل نے اپنی مشہور کتاب ”آن ہیروز، ہیرو ورشپ اینڈ دی ہیروک ان ہسٹری“ میں حضرت محمد (ﷺ) کی تعریف کی۔ کارلائل، جو خود مسلمان نہیں تھے، نے آپ ﷺ کے خلوص، حکمت، اور اپنے مشن کے ساتھ ثابت قدمی کی تعریف کی۔ انہوں نے آپ ﷺ کے خلاف کیے جانے والے جھوٹے الزامات کو مسترد کیا اور آپ ﷺ کی بطور رہنما غیر معمولی خصوصیات پر زور دیا۔ کارلائل نے کہا: ”ایک خاموش عظیم روح؛ وہ شخص جو صرف سنجیدہ ہو سکتا ہے۔۔۔ اس نے دنیا کو روشن کرنا تھا؛ دنیا کے خالق نے یہی حکم دیا تھا۔“
 یہ کتاب 1840 میں دی گئی چھ لیکچرز کا مجموعہ ہے جو بعد میں 1841 میں شائع ہوئی۔ ان لیکچرز میں کارلائل نے ہیرو ازم اور تاریخ پر عظیم شخصیات کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔
ایک اور مشہور حوالہ میں امریکی ماہر فلکیات اور مورخ مائیکل ایچ ہارٹ نے اپنی کتاب ”دنیا کے 100 سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے افراد“ میں حضرت محمد (ﷺ) کو تاریخ کی سب سے بااثر شخصیت قرار دیا۔ 1978 میں شائع ہونے والی اس کتاب میں ہارٹ نے 100 ایسی شخصیات کی درجہ بندی کی ہے جنہوں نے انسانی تاریخ پر سب سے زیادہ اثر ڈالا۔ ہارٹ نے لکھا کہ حضرت محمد (ﷺ) ”تاریخ میں واحد شخصیت ہیں جو مذہبی اور سیکولر دونوں میدانوں میں انتہائی کامیاب رہی ہیں۔“ ہارٹ کا یہ اعتراف کہ آپ ﷺ کا اثر و رسوخ بے مثال تھا، ظاہر کرتا ہے کہ غیر مسلم بھی آپ ﷺ کی قیادت اور آپ کی تعلیمات کی عالمی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔اسی طرح 1854 میں فرانسیسی مورخ اور فلسفی الفانس دے لامارٹین نے اپنی کتاب ”ہسٹری دے لا ترکوی“ میں حضرت محمد (ﷺ) کی بہترین اخلاقی خصوصیات اور دنیا پر ان کے اثرات کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا: ”اگر مقصد کی عظمت، وسائل کی کمیت، اور حیرت انگیز نتائج انسانی جینئس کے تین معیارات ہیں، تو کون کسی بھی عظیم شخصیت کا موازنہ محمد سے کر سکتا ہے؟“ لامارٹین کا یہ نقطہ نظر ظاہر کرتا ہے کہ حضرت محمد (ﷺ) کا اثر مذہبی اور سیاسی میدانوں میں بھی بے مثال تھا، حالانکہ لامارٹین کا آپ کے مذہب سے تعلق نہیں تھا۔
مزید برآں، مہاتما گاندھی، جو بھارتی آزادی کی تحریک کے رہنما اور عدم تشدد کے حامی تھے، نے بھی حضرت محمد (ﷺ) کی زندگی کی تعریف کی۔ اپنی تحریروں میں، گاندھی نے آپ ﷺ کی سادگی، عاجزی، اور اخلاقی عظمت کی تعریف کی جو آپ ﷺ کی زندگی کا خاصہ تھی۔ انہوں نے کہا: ”میں نے اس شخصیت کو جاننا چاہا جو آج لاکھوں انسانوں کے دلوں پر بلامقابلہ راج کرتا ہے۔“ 
میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اسلام کو اس زمانے میں تلوار سے نہیں جیتا گیا تھا۔ یہ رسول کی سادگی، ان کی خود فراموشی، ان کی وعدوں کی پاسداری، اپنے دوستوں اور پیروکاروں سے محبت، بے خوفی، اور خدا پر بھروسے نے دل جیتے۔ ”گاندھی کے اس تاثر نے آپ ﷺ کی روحانی اور اخلاقی خوبیوں کو اجاگر کیا جنہیں غیر مسلموں نے بھی قابل تعریف اور متاثر کن پایا۔“
برطانوی فلسفی اور مورخ سر جارج برنارڈ شا نے 1936 میں حضرت محمد (ﷺ) کے بارے میں مثبت بات کی۔ شا نے ”دی جینیوئن اسلام“ میں آپ ﷺ کو ”انسانیت کا نجات دہندہ“ کہا۔ انہوں نے پیش گوئی کی کہ اگر حضرت محمد (ﷺ) جیسا شخص آج کی دنیا کی قیادت سنبھالے تو وہ ضروری امن اور خوشی لا سکتا ہے۔ شا نے اسلام کی عملییت اور معقولیت کی تعریف کی اور اس بات کو تسلیم کیا کہ حضرت محمد (ﷺ) نے ایک منصفانہ اور انسانی معاشرہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
ایک اور مشہور غیر مسلم عالم، واشنگٹن ارونگ، جو امریکی مصنف اور مورخ تھے، نے 1850 میں اپنی کتاب ”محمد اور اس کے جانشین“ میں حضرت محمد (ﷺ) کو ایک عظیم اخلاقی اور حکمت والے انسان کے طور پر پیش کیا۔ ارونگ نے آپ ﷺ کی قیادت کی خصوصیات، آپ کی ذاتی قربانیوں، اور آپ کی حکمرانی کے بصیرت افروز طریقوں کا ذکر کیا۔ ارونگ نے لکھا: ”وہ اپنے کھانے پینے اور لباس میں سادہ تھے، اپنے طور طریقوں میں غیر نمایاں، اپنے پیروکاروں کے لیے مہربان اور شفیق، کمزور اور جاہلوں کے ساتھ صبر کا مظاہرہ کرنے والے، اپنے دشمنوں کے لیے بہادر اور فراخدل تھے۔“
 ان کی تفصیلی وضاحت نے آپ ﷺ کی اخلاقی کردار اور قیادت کے لیے ان کی گہری تعریف کو ظاہر کیا۔
برطانوی مصنف اور مذہبی مورخ کرن آرمسٹرانگ نے اپنی کتاب ''محمد: ایک سوانح حیات'' میں حضرت محمد (ﷺ) کی زندگی کو ہمدردانہ اور بصیرت انگیز انداز میں پیش کیا۔خ 1991 میں شائع ہونے والی اس کتاب میں آرمسٹرانگ نے تسلیم کیا کہ آپ ﷺ کا پیغام آفاقی تھا اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے تھا۔ انہوں نے لکھا: ”حضرت محمد (ﷺ) کا بنیادی مقصد ایک منصفانہ معاشرہ قائم کرنا تھا جہاں غریبوں اور کمزوروں کے ساتھ عزت سے پیش آیا جاتا۔“
 آرمسٹرانگ کا کام اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ آپ ﷺ ایک ہمدرد رہنما تھے جو انصاف اور مساوات کے لیے جدوجہد کرتے تھے، چاہے ان کے پیروکار کسی بھی مذہب کے ہوں۔
ریورنڈ بوسورتھ اسمتھ کی کتاب ”محمد اور محمدیت“ پہلی بار 1874 میں شائع ہوئی۔ یہ لیکچرز کا مجموعہ ہے جو انہوں نے رائل انسٹی ٹیوٹ آف گریٹ برٹن میں دیے۔ کتاب کا مقصد حضرت محمد (ﷺ) اور اسلام کے بارے میں متوازن نقطہ نظر فراہم کرنا تھا، جس میں اسلام اور عیسائیت کے درمیان مشترکات کو اجاگر کیا گیا تاکہ باہمی افہام و تفہیم اور احترام کو فروغ دیا جا سکے۔ انہوں نے حضرت محمد (ﷺ) کی قیادت اور لوگوں کو متحد کرنے کی صلاحیت کی تعریف کی۔ اسمتھ نے لکھا: ”وہ قیصر اور پوپ دونوں تھے؛ لیکن وہ پوپ کے دعووں کے بغیر پوپ تھے، قیصر کے لشکروں کے بغیر قیصر تھے۔“ یہ آپ ﷺ کی قیادت اور انصاف و عاجزی کے ساتھ حکمرانی کی صلاحیت کو تسلیم کرنے والا بیان ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ آپ کا اثر مسلم دنیا سے کہیں آگے تھا۔
ان غیر مسلم مورخین، مفکرین، اور مصنفین کی تحریریں اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ حضرت محمد (ﷺ) ایک آفاقی شخصیت تھے، جن کا پیغام ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ ہم آہنگ تھا۔ آپ ﷺ کی زندگی اور تعلیمات نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ دیگر مذاہب اور ثقافتوں کے افراد کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ آپ کی رحمت، شفقت، انصاف، اور حکمت انسانیت کے لیے ایک لازوال مثال ہیں۔
”رحمت اللعالمین“ کا لقب آپ ﷺ کی آفاقیت کی گواہی دیتا ہے۔ آپ کو صرف عربوں کے لیے یا مسلمانوں کے لیے نہیں، بلکہ پوری کائنات کے لیے بھیجا گیا تھا۔ آپ ﷺ کی تعلیمات، جو امن، انصاف، اور رحم دلی کی ہیں، آج بھی اتنی ہی اہم ہیں جتنی چودہ سو سال قبل تھیں۔ جب غیر مسلم علما کے خیالات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت محمد (ﷺ) کو محض ایک مذہبی شخصیت کے طور پر نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے رہنمائی کے ایک مینار کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...