رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات و ارشادات پر مختلف مطبوعات کا مطالعہ کرتے ہوئے حکیم الامت ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا ایک گراں قدر شاہ پارہ نظر سے گزرا تو فیصلہ کیا کہ آج کے کالم میں اسے نذر قارئین کریں۔ عید میلاد النبی پر شاعر مشرق کے ارشادات ہماری آنکھیں کھولنے کا باعث ہوں گے اور اخلاقی تربیت کے موضوع پر علماءکرام کی توجہ مبذول کرانے کا ذریعہ بھی بنیں گے۔وہ ارشاد فرماتے ہیں زمانہ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے۔ انسانوں کی طبائع، ان کے افکار اورانکے نقطہ ہائے نگاہ بھی زمانے کے ساتھ ہی بدلتے رہتے ہیں۔ لہٰذا تیوہاروں کے منانے کے طریقے اورمراسم بھی ہمیشہ متغیر ہوتے رہتے ہیں اور ان سے استفادہ کے طریق بھی بدلتے رہتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم بھی اپنے مقدس دنوں کے مراسم پر غور کریںاور جو تبدیلیاں افکار کے تغیرات سے ہونی لازم ہیں ان کو مدنظر رکھیں۔
منجملہ ان مقدس ایام کے جو مسلمانوں کیلئے مخصوص کئے گئے ہیں، ایک میلاد النبی کا دن بھی ہے میرے نزدیک انسانوں کی دماغی اور قلبی تربیت کیلئے نہایت ضروری ہے کہ انکے عقیدے کی رو سے زندگی کا جو نمونہ بہترین ہو وہ ہر وقت انکے سامنے رہے چنانچہ مسلمانوں کیلئے اسی وجہ سے ضروری ہے کہ وہ اسوہ¿ رسولﷺ کو مدنظر رکھیں تاکہ جذبہ تقلید اور جذبہ عمل قائم رہے۔ ان جذبات کو قائم رکھنے کے تین طریقے ہیں پہلا طریق تو درودو صلوٰة ہے جو مسلمانوں کی زندگی کا جزو لاینفک ہو چکا ہے وہ ہر وقت درود پڑھنے کے مواقع نکالتے ہیں، عرب کے متعلق میں نے سنا کہ اگر کہیں بازار میں دو آدمی لڑ پڑتے ہیں اور تیسرا بہ آواز بلند اللھم صلی علی سیدنا محمد و بارک وسلم پڑھ دیتا ہے تو لڑائی فوراً رک جاتی ہے اور متخاصمین ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھانے سے فوراً باز آجاتے ہیں۔ یہ درود کا اثر ہے اور لازم ہے کہ جس پر درود پڑھا جائے اس کی یاد قلوب کے اندر اپنا اثر پیدا کرے۔ پہلا طریق انفرادی : دوسرا اجتماعی ہے۔ یعنی مسلمان کثیر تعداد میں جمع ہوں اور ایک شخص جو حضور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات سے پوری طرح باخبر ہو آپ کی سوانح زندگی بیان کرے تاکہ انکی تقلید کا ذوق وشوق مسلمانوں کے قلوب میں پیدا ہو۔
تیسرا طریق اگرچہ مشکل ہے لیکن بہر حال اس کا بیان کرنا نہایت ضروری ہے وہ طریقہ ہے کہ یاد رسول اس کثرت سے اور ایسے انداز میں کی جائے کہ انسان کا قلب نبوت کے مختلف پہلوﺅں کا خود مظہر ہو جائے یعنی آج سے 1441 سال پہلے کی جو کیفیت حضور سرور عالم کے وجود مقدس سے ہویدا تھی وہ آج قلوب کے اندر پیدا ہو جائے۔ حضرت مولانا روم فرماتے ہیں۔
آدمی دیدست باقی پوست است
دیدآں باشد کہ دید دوست است
یہ جو ہر انسانی کا انتہائی کمال ہے کہ اسے دوست کے سوا اور کسی چیز کی دید سے مطلب نہ رہے۔ یہ طریقہ بہت مشکل ہے۔ اس کے لئے کچھ مدت نیکوں اور بزرگوں کی صحبت میں بیٹھ کر روحانی انوار حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگر یہ میسر نہ ہو تو پھر ہمارے لئے یہی طریقہ غنیمت ہے جس پر ہم آج عمل پیرا ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ا س طریق پر عمل کرنے کیلئے کیا، کیا جائے؟ سالہا سال سے شور برپا ہے کہ مسلمانوں کو تعلیم سے زیادہ اس قوم کی تربیت ضروری ہے اور ملی اعتبار سے یہ تربیت علماءکے ہاتھ میں ہے۔ اسلام ایک خالص تعلیمی تحریک ہے صدر اسلام میں سکول نہ تھے کالج نہ تھے، یونیورسٹیاں نہ تھیں، لیکن تعلیم و تربیت اس کی ہر چیز میں ہے۔ خطبہ جمعہ، خطبہ عید، خطبہ حج وعظ غر ض تعلیم و تربیت عوام کے بے شمار مواقع اسلام نے بہم پہنچائے ہیں لیکن افسوس کہ علماءکی تعلیم کا کوئی صحیح نظام قائم نہ رہا اور اگر رہا بھی تو اس کا طریق عمل ایسا رہا کہ دین کی حقیقی روح نکل گئی جھگڑے پیدا ہوگئے اور علماءکے درمیان جنہیں پیغمبر علیہ السلام کی جانشینی کا فرض ادا کرنا تھا، سر پھٹول ہونے لگی، مصر، عرب، ایران، افغانستان ابھی تہذیب وتمدن میں ہم سے پیچھے ہیں لیکن وہاں علمائ، ایک دوسرے کا سر نہیں پھوڑتے وجہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک نے اخلاق کے اس معیار اعلیٰ کو پالیا ہے جس کی تکمیل کیلئے حضور علیہ الصلوة والسلام مبعوث ہوئے تھے اور ہم ابھی اس معیار سے بہت دور ہیں۔ دنیا میں نبوت کا سب سے بڑا کام تکمیل اخلاق ہے۔ چنانچہ حضور نے فرمایا بعثت لاتمم مکارم االاخلاق۔ یعنی میں نہایت اعلیٰ اخلاق کے اتمام کیلئے بھیجا گیا ہوں۔ اس لئے علماءکا فرض ہے کہ وہ رسول اللہ کے اخلاق ہمارے سامنے پیش کیا کریں تاکہ ہماری زندگی حضور کے اسوہ¿ حسنہ کی تقلید سے خوشگوار ہو جائے اور اتباع سنت زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزوں تک جاری و ساری ہو جائے۔ حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے خربوزہ لایا گیا تو آپ نے کھانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ مجھے معلوم نہیں رسول اللہ نے اسے کو کس طرح کھایا ہے۔ مبادا میں ترک سنت کا مرتکب ہوجاﺅں۔
کامل بسطام در تقلید فرد
اجتناب از خوردن خربوزہ کرد
افسوس کہ ہم میں بعض چھوٹی چھوٹی باتیں بھی موجود نہیں ہیں جن سے ہماری زندگی خوشگوار ہو اور ہم اخلاق کی فضاء میں زندگی بسر کرکے ایک دوسرے کے لئے باغ رحمت ہو جائیں اگلے زمانے کے مسلمانوں میں اتباع سنت سے ایک اخلاقی ذوق اورملکہ پیدا ہو جاتا تھا اور وہ ہر چیز کے متعلق خود ہی اندازہ کرلیا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رویہ اس چیز کے متعلق کیا ہوگا۔
حضرت مولانا روم بازار میںجا رہے تھے آپ کو بچوں سے بہت محبت تھی کچھ بچے کھیل رہے تھے ان سب نے مولانا کو سلام کیا اور مولانا ایک ایک کا سلام الگ الگ قبول کرنے کیلئے دیر تک کھڑے رہے، ایک بچہ کہیں دور کھیل رہا تھا، اس نے وہیں سے پکار کر کہا کہ حضرت! ابھی جائیے گا نہیں میرا سلام لیتے جائیے تو مولانا نے بچہ کی خاطر دیر تک توقف فرمایا اور اس کا سلام لے کر گئے کسی نے پوچھا حضرت! آپ نے بچہ کے لئے اس قدر توقف کیا، آپ نے فرمایا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قسم کا واقعہ پیش آتا تو حضور بھی یونہی کرتے۔گویا ان بزرگوں میں تقلید رسول اور اتباع سنت سے ایک خاص اخلاقی ذوق پیدا ہوگیا تھا اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں علماءکو چاہئے کہ ان کو ہمارے سامنے پیش کریں قرآن و حدیث کے غوامض بتانا بھی ضروری ہے لیکن عوام کے دماغ ابھی ان مطالب عالیہ کے متحمل نہیں انہیں فی الحال صرف اخلاق نبوی کی تعلیم دینی چاہئے۔