حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت طیبہ پر ہزاروں لاکھوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور قیامت تک لکھی جاتی رہیں گی لیکن ان کے اوصاف حمیدہ کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کی زندگی کا ایک ایک پل ان کا اٹھنا بیٹھنا آرام فرمانا گفتگو فرمانا خاموشی غرضیکہ ہر لمحہ حکمت آمیز تھا۔ ہم تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ظاہری حیات طیبہ کا مکمل احاطہ نہیں کر سکتے ان کے پوشیدہ رموز بارے تو انسانی عقل ادراک ہی نہیں رکھتی۔ جب کہا جاتا ہے کہ وہ رحمت العالمین ہیں یعنی کہ وہ تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں تو ہم تو صرف اس جہان کے معاملات بارے مکمل دسترس نہیں رکھتے، باقی جہانوں کے بارے میں کیسے سوچ سکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ظہور سے لے کر ان کی ظاہری پردہ پوشی تک کے معاملات کو دیکھا جائے تو ان کی زندگی کا ہر پہلو مشعل راہ ہے انھوں نے دنیا جہان کے معاملات پر اپنی حیاتِ طیبہ کے ذریعے عملدرآمد کرکے رہتی دنیا تک عملی نمونہ پیش کر دیا کہ آپ نے زندگی ایسےگزارنی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت سے پہلے کی بھی زندگی کا احاطہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اعلی اقدار روایات حسن اخلاق کے امین تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو لوگ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کردار کی وجہ سے نبوت سے پہلے ہی صادق اور امین کہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جب اسلام کی پہلی باضابطہ دعوت دی اور اہل قریش بنو عدی بنو فہر کو کوہ صفا پر چڑھ کر آواز دی اور فرمایا اگر میں تمہیں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر ہے اور وہ تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم یقین کرو گے۔ سب نے کہا ہاں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم صادق اور امین ہیں یعنی کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کردار کو مدنظر رکھ کر سمجھتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سچ بولتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے باپ دادا کے رسم ورواج کو چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بچپن کی زندگی پر غور کیا جائے تو اس میں بھی متوازن سنجیدگی اور عقل وشعور کی معراج نظر آتی ہے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا لڑکپن اور جوانی بھی مشعل راہ دکھائی دیتی ہے۔ بطور تاجر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی کو دیکھا جائے کہ بھری جوانی میں جب طاقت حسن غالب ہوتا ہے اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایمانداری کا وہ اعلی نمونہ پیش کیا کہ حضرت خدیجہ نے خود آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو نکاح کا پیغام بجھوایا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم خود مختار تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فوری جواب دینے کی بجائے فرمایا کہ میں اپنے چچا سے مشورہ یا ان کی اجازت کے بعد آگاہ کروں گا۔ اس کامطلب بزرگوں کی رضامندی حاصل کرنا تھا۔ یہ آجکل کے نوجوانوں کے لیے بھی سنہری اصول ہے جو کہتے ہیں کہ شریعت نے انھیں حق دیا ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس اصول کو بھی مدنظر رکھیں۔ بطور حکمت کار دیکھا جائے تو ایک ہی واقعہ کافی ہے جب خانہ کعبہ کی تعمیر ہو رہی تھی اور حجرہ اسود رکھنے پر قبائل میں نوبت جھگڑے تک جا پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حکمت تھی جس نے احسن طریقے سے معاملہ بھی حل کروادیا اور سب کو خوش بھی کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک چادر میں حجرہ اسود رکھ کر تمام قبائل کے سرداروں سے کہا کہ آپ اسے پکڑ کر تنصیب کی جگہ پر رکھ دیں اسی طرح بطور مبلغ آپ کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سب سے پہلے اپنا کردار سب کے سامنے پیش کیا پھر جو بات کہی اس پر خود عملدرآمد کیا پھر دوسروں کو دعوت دی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تمام تر جبر مخالفتوں کے باوجود نہ کسی کو بددعا دی نہ کسی کو سخت لفظ کہے اور نہ کسی سے بدلہ لیا۔ طائف کا واقعہ تو ظلم کی انتہا تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم طائف میں لوگوں کو دعوت اسلام دینے گئے تو وہاں کے بدبخت لوگوں نے پتھر مار مار کر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو لہولہان کر دیا۔ فرشتے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حکم فرمائیں دونوں پہاڑوں کو یکجا کر کے ان کو نیست ونابود کر دیں تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا یا اللہ انھیں ہدایت نصیب فرما یہ شعور نہیں رکھتے۔ مکہ کے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر عرصہ حیات تنگ کر دیا سوشل بائیکاٹ کیا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی کمر مبارک پر سجدے کی حالت میں اونٹ کی اوجھڑی رکھ دی لیکن آپ نے کسی کو کچھ نہیں کہا۔ جو عورت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر کوڑا پھینکتی تھی اس نے دو دن کوڑا نہ پھینکا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کا پتہ کرنے چلے گئے اس خاتون نے دیکھا کہ میں کس طرح اذیت دیتی تھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کس کردار کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حسن سلوک کی وجہ سے ایمان لے آئی۔ بطور سپہ سالار آپ کی زندگی کا احاطہ کیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سامان حرب کی تیاری نمائش اور گھوڑے ہر وقت تیار رکھنے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دشمن کی طاقت کو مدنظر رکھ کر جنگ لڑنے اور جنگ سے بچنے کی حکمت عملی بھی وضح کی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صلح حدیبیہ کرکے بہترین حکمت عملی کا عملی نمونہ پیش کیا اور پھر فاتح جرنیل کے طور پر مفتوحہ علاقوں پر عمل داری اور محکوموں کے ساتھ سلوک کا بھی عملی نمونہ پیش کیا۔ غزوہ بدر کے موقع پر گرفتار جنگی قیدیوں سے حسن سلوک اور تعلیم کی اہمیت کو مدنظر رکھ کر مدینہ کے بچوں کی تعلیم کے عوض رہائی بھی دی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جنگوں کے اصول واضح کیے اور فرمایا کہ اگر کوئی ہتھیار پھینک دے تو اس کو معاف کر دینا۔ فصلیں اور پھل دار درخت ضائع نہ کرنا، بچوں اور عورتوں پر تلوار نہ اٹھانا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مدینہ منورہ کے قبائل سے معاہدے کرکے داخلی استحکام کی راہ دکھائی اور پھر دوسرے ملکوں کے سربراہان سےخط وکتابت کرکے اور قبائل سے معاہدوں کی صورت میں خارجہ امور کے معاملات واضح کیے۔ بطور رہبر اور لیڈر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عملی نمونہ پیش کیا وہ قیامت تک دنیا بھر کے لیڈروں کے لیئے مشعل راہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مدینہ کی بستی میں ریاست مدینہ کی ایسی بنیاد رکھی جس کو فالو کرکے مسلمانوں نے پوری دنیا پر حکومتیں کیں عدل کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ پائیدار امن کا راستہ دکھا دیا۔ ویسے تو بے شمار مثالیں موجود ہیں لیکن جب ایک بااثر قبیلہ کی خاتون کے چوری کرنے کا معاملہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے روبرو پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس عورت کو ہاتھ کاٹنے کی سزا سنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کہا گیا کہ یہ فلاں قبیلے کی عورت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا خدا کی قسم اگر اس عورت کی جگہ پر میری بیٹی فاطمہ بھی ہوتی اور اس نے ایسا کیا ہوتا تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹنے کی سزا سناتا کیونکہ تم سے پہلی قومیں اسی وجہ سے تباہ ہوئیں کہ ان میں جب کو بااثر جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی کمزور کرتا تو اس کو سزا دی جاتی(غور کیا جائے تو ہمارے معاشرے میں ایسا ہی نہیں ہو رہا؟۔ طاقتور جتنا مرضی بڑا جرم کر لے وہ بچ جاتا ہے وہ باآسانی انصاف خرید لیتا ہے اور کمزور سزا پاتا ہے) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بچوں عورتوں ہمسایوں حتی کہ جانوروں تک کے حقوق واضح کر دیے اور انسانوں کی فلاح کے لیے ایک فلاحی ریاست کا عملی نمونہ پیش کیا۔ اگر ہم آج اپنے مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں حیات طیبہ سے سبق سیکھنا ہو گا اور اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اصولوں کو لاگو کرنا ہو گا ورنہ جس نہج پر ہمارا معاشرہ پہنچ چکا ہے ہمیں کوئی بھی تباہی سے نہیں بچا سکتا۔