محبت کا تقاضا

یہاں سب عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔ رسول سے محبت کرنیوالے ان کی ناموس پر مر مٹنے کو تیار اور ان کا یوم ولادت تو محبت کے اظہار کا گویا ایک بڑا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ہر جانب سبز پرچموں کی بہار ہر طرف ثنا خوانی۔ عمارتوں پر خوبصورت چراغاں، کہیں مشروبات کی سبیلیں تو کہیں لنگر کا اہتمام۔ کوئی کسر کوئی کمی ہم نہیں چھوڑتے اپنے پیارے نبی کی ولادت باسعادت کا جشن منانے میں لیکن کیا اس سب سے نبی کی محبت کا تقاضا پورا ہوجاتا ہے؟ محبت تو جس سے کی جائے اس کی تو کوئی بات ٹالی تک نہیں جاسکتی اس کو نہ ماننا یا اس سے انحراف تو دور کی بات ہے لیکن ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات، ان کے بتائے ہوئے اصولوں کو کس قدر اپنی زندگیوں پر لاگو کرتے ہیں تو جواب مایوس کن ہی ہے۔ یقین جانیں ہم جس رسول سے محبت کا دعوی کرتے ہیں اگر ان کی تعلیمات کو بھی اپنا لیتے تو جن مسائل کا آج ہم انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں شکار ہوچکے ہیں وہ نہ ہوتے۔ آج ہم بحیثیت قوم شدید ترین تقسیم کا شکار ہوچکے ہیں نفرت کی دیواریں اتنی بلند کی جاچکی ہیں کہ ہمیں کچھ اور دکھائی ہی نہیں دیتا، عدم برداشت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہم دوسرے کی بات، اس کا موقف تک سننے کو تیار نہیں۔ یہ مسائل ہمارے دین اور نبی کریم کی تعلیمات سے دوری نہیں تو اور کیا ہے۔ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ سے کسی دوسرے مسلمان بھائی کو تکلیف نہ پہنچے ،کیا کبھی ہم نے ایسا کرنے کی کوشش کی ہے، کیا کبھی ہم نے ایسے کسی اقدام سے خود کو روکا ہے جو ہمارے کسی مسلمان بھائی کیلئے تکلیف کا باعث بنتا ہو۔ تو خود اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا اور جواب مل جائے گا۔ آج دوسرے کو تکلیف دینا ہمارے لئے خوشی کا باعث بنتا جارہا ہے،ہمیں درس دیا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق آگے بیان کردے۔ کہیں اور نہ جائیں سوشل میڈیا اٹھا کر دیکھ لیں ہم سبھی بغیر تحقیق کے باتیں آگے نہیں پھیلاتے ؟ کتنے ہیں ہم میں جو ایسا نہی کرتے اور پھر ہمارا یہی عمل معاشرے میں کتنی خرابیوں اور کتنوں کیلئے تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ کچھ اندازہ بھی ہے؟ ہماری ڈکشنری سے درگزر اور معافی کا لفظ غائب ہوچکا چھوتی چھوٹی باتوں پر بدلہ لینے کیلئے فوری تیار ہوجاتے ہیں۔ کیا ہمیں وہ یاد نہیں کہ جب رسول اکرم پر کوڑا پھینکا گیا تو انہوں درگزر اور معافی سے کام لیا، جنہوں نے ایسا کیا ان کیلئے دعا کی، فتح مکہ کے بعد کیا اعلان کیا گیا۔ ہم بھول چکے ہیں۔ اسی لئے تو آج ہم بات بات پر لڑنے مرنے پر اتر آتے ہیں۔ اسی لئے تو آج ہم اس شدید تقسیم کا شکار ہوچکے ہیں جو معاشرے کے طور پر ہماری نسلوں میں سرایت کرتی جارہی ہے۔ 
ہمارے سامنے تو دو چیزیں ہیں قران اور سنت نبی، یہی ہمارے لیئے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ زندگی گزارنے کا راستہ لیکن آج کے دن اس بات کا بھی برملا اعتراف کرنا ہوگا کہ ہم اس راستے سے بھٹک چکے ہیں انفرادی طور پر اور معاشرے کی حیثیت میں آج ہم جن بھی مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں ان کی وجہ ہماری انہی تعلیمات سے دوری ہے۔ ہم تو خود کو نبی کا ماننے والا کہتے ہیں لیکن یہاں دوسرے مذاہب کے پیروکار ان کی تعلیمات اور بتائے گئے زندگی کے اصولوں پر عمل کرکے کامیاب اور آئیڈیل معاشرہ بن چکے ہیں لیکن ہم کہاں چلے گئے ہیں، ہمارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمت العالمین تھے یعنی تمام جہاں کیلئے رحمت تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ان کے امتی ان کا نام لینے والے کسی کیلئے باعث زحمت بن جائیں ،ہمارے رسول کا کردار دیکھ کر ان کے سخت ترین مخالف بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے لیکن ہمارا کردار کیا بن چکا ہے ہمیں دیکھ کر کیا کوئی ہم سا بننا چاہے گا، محبت کا تقاضا یہ نہیں کہ صرف ان کے نام سے محبت کی جائے اصل محبت تو یہ ہے کہ ان کی تعلیمات پر عمل کریں، ان کے بتائے گئے اصولوں پر زندگی گزاریں جس راستے پر وہ چلے اسی کو پکڑیں۔ کم از کم آج کے دن چند لمحے نکال کر سوچیں کیا ہم ایسا کررہے ہیں ؟یقین جانیں ہمیں اپنے تمام مسائل اور مشکلات کا حل سامنے نظر آ جائیگا۔

ای پیپر دی نیشن