اسلام آباد (وقار عباسی/وقائع نگار+اپنے سٹاف رپورٹر سے ) آئین میں 26 ویں ترمیم کے حوالے سے اتفاق رائے نہ ہونے اور حکومت کو درکار دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہونے پر قومی اسمبلی کا اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا۔کئی دن کی کوششوں کے باوجود بھی آئینی پیکج پر اپوزیشن بالخصوص مولانا فضل الرحمٰن کو منانے میں ناکامی کے بعد ترمیم کی منظوری بھی موخر کر دی گئی۔ قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا۔ حکومتی وفود کے رابطے اور جوڑ توڑ سب ناکام ہو گئے۔ آئینی ترامیم غیر معینہ مدت کے لیے مؤخر کر دی گئیں۔ پارلیمنٹ ہائوس میں گفتگو کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا پارلیمنٹ سے ترمیم منظور نہ ہونا حکومت کی ناکامی نہیں، ہمارے نمبرز پورے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئینی ترامیم آنے میں ہفتہ دس دن بھی لگ سکتے ہیں، ترامیم منظور ہو جائیں گی، مجھے اس میں کوئی بڑا رخنہ نظر نہیں آتا اور اگر ترامیم نہیں بھی آئیں تو کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔ مسئلہ نمبر گیم کا نہیں ہے بلکہ مسودے میں کچھ نکات پر اتفاق کا ہے جو کہ ہر فریق کا حق ہے جب کہ مسودہ کبھی بھی سامنے نہیں آتا بلکہ پہلے یہ ایوان میں پیش ہوتا ہے۔ لیگی رہنما نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان نے وقت مانگا ہے، مولانا بہت ساری چیزوں پر مطمئن تھے، مولانا کو ترامیم پر اتفاق ہے مگر بعض جزیات کی تفصیل کے مطالعے کے لیے وقت درکار ہے۔ عرفان صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کے نئے سیشن میں ترامیم آجائیں گی۔ پی ٹی آئی والے یہاں متفق ہوکر اڈیالہ چلے بھی جائیں اور بانی پی ٹی آئی کہے میں نہیں مانتا تو بات ختم ہو جائے گی۔ پی ٹی آئی کی مجبوری ہم سمجھتے ہیں۔وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آئینی ترمیم پر اتفاق رائے ہوجائے تو ایوان میں پیش کریں گے۔جب اتفاق رائے ہوگا تو مسودہ ایوان میں ضرور آ جائے گا۔وزیردفاع کا مزید کہنا تھا کہ اس کا بنیادی ڈاکیومنٹ میثاق جمہوریت تھا جس پر میاں نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کے دستخط تھے۔ اس میں صرف ادارے کی عزت کو یقینی بنایا گیا ہے۔ شق 63 اے میں توجیح تھی کہ ووٹ ڈالا جائے گا گنا نہیں جائے گا۔ ترمیم کے ذریعے اس معاملے کو ختم کریں گے۔ آئینی عدالت عدلیہ کی ملکیت رہے گی۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم دلیری کے ساتھ لے کر آئیں گے اور اپوزیشن سے کہتا ہوں آپ نے گھبرانہ نہیں ہے۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاق وزیر نے کہا کہ آئینی ترامیم کا مسودہ اس وقت آتا جب بل پیش کیا جاتا۔انہوں نے کہ کہ ڈرافٹ پر پہلے حکومتی حلقوں میں مشاورت ہوتی ہے، یہ بل مسودہ بن کر کابینہ میں نہیں گیا ، ہماری مشاورت تمام اتحادی جماعتوں سے ہوئی۔ آرٹیکل 8 اور 199 سے متعلق تجاویز تھیں جبکہ نیشنل سیکیورٹی سے متعلق کچھ مخصوص علاقوں سے متعلق ایک تجویز تھی، مسودہ فائنل ہوتا تو سامنے لایا جاتا۔ وہ کون سی طاقت تھی جنہوں نے کہا کہ آئینی عدالت نہیں بنے گی، تعصب کی عینک سائیڈ پر رکھ کر آگے چلیں۔ چیف جسٹس نے چینی کے ریٹ کا تعین نہیں کرنا۔ آئینی عدالت میں 7 سے 8 ججز ہوں جس میں وفاق کی تمام اکائیوں کی نمائندگی ہو جبکہ آرٹیکل 184 کو ریگولیٹ کریں گے۔ جوڈیشل کمیشن کو 12 رکنی کرنے کی تجویز دی گئی ۔، جس بار کونسل نے اس کی مخالفت کی میں ذمہ دار ہوں گا۔وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ قاضی فائز آپ کے خوابوں میں زیا دہ آتے ہیں، ہم نے بھی دیکھا جو ڈیم بنانے کے نام پر ہمیں ہانکتے تھے۔ آئینی ترامیم دلیری کے ساتھ لے کر آئیں گے اور اپوزیشن سے کہتا ہوں آپ نے گھبرانہ نہیں ہے۔پارلیمنٹ کو دیکھنا ہے کہ ملک کو کیسے چلنا ہے، سیاستدان اپنی کمزوریوں کی وجہ سے اختیار کسی اور کی جھولی میں ڈالتے آئے ہیں جب کہ چیف جسٹس کو طے نہیں کرنا کہ ملک کیسے چلے گا بلکہ یہ پارلیمنٹ کو کرنا ہے۔ دوسری طرف حکومتی اتحادی ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماء فاروق ستار نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر مسودہ نہیں تو ورکنگ پیپر خصوصی کمیٹی اجلاس میں دیا جانا چاہے تھا، بطور اتحادی ہمیں بھی تحفظات ہیں ، عام طور پر چھٹی کے دن اجلاس نہیں ہوتا۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کہا کہ جب ایک ایک کرکے سب کچھ باہر چلاگیا اور کم از کم ایک موقع ملا تھا، ہم حلیف ہیں تو ہمارا بھی شکوہ ہے ہمیں بھی ہلکے میں لیا جاتا ہے، اور عین وقت میں جب ہم توجہ دلاتے ہیں تو پھر اسحٰق ڈار اور اعظم نذیر تارڑ آتے ہیں اور میرے ساتھیوں سے بات کرتے ہیں، سب کو طریقہ کار پر اختلاف ہیِِ، سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بھی غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا۔ جبکہ وفاقی کابینہ، قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس معرض التواء میں رکھ کر مولانا فضل الرحمن اور سردار اختر مینگل سے رابطے بھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکے صدر مسلم لیگ ن میاں نواز شریف قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے خصوصی طور پر لاہور سے اسلام آباد میں آئے۔ پی ٹی آئی رہنماوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے بل کی کاپی تک کسی کو فراہم نہیں کی ۔ بل میں مجموعی طور پر 43 تجاویز شامل کی گئیں ۔
اسلام آباد( نوائے وقت رپورٹ+ خبر نگار خصوصی ) پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری چند گھنٹوں میں دوبارہ ملاقات کیلئے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے ہیں۔ پی پی کے وفد میں سید خورشید شاہ، انجنیئر نوید قمر، میئر کراچی مرتضیٰ وہاب شامل ہیں۔ بلاول سے ملاقات میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہیں ترامیم پر اتفاق ہے مگر حکومت عجلت نہ کرے، بلاول بھٹو نے کہا کہ میں اور آپ بیٹھ جاتے ہیں کوئی کمی بیشی ہے تو دور کر لیتے ہیں ، ہم تو پیلے بھی بھگت چکے ہیں مزید بھگت لیں گے ۔ اس سے قبل وزیراعظم سے بلاول بھٹو زرداری نے اہم ملاقات کی جس میں پی پی چیئرمین نے مولانا فضل الرحمان سے ہونے والی ملاقات کے حوالے سے وزیراعظم کو آگاہ کیا۔ ملاقات میں ملکی سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیاگیا ، دونوں رہنمائوں کے درمیان مولانا کی جانب سے آئینی ترمیم کے بارے میںدی جانے والی تجاویز کا بھی جائزہ لیا گیا، وزیر عظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو نے مولانا فضل الرحمان کو منانے کے حوالے سے عزم کا اظہار کرتے ہوئے اتفاق کیا کہ آئینی ترامیم سے متعلق مولانا فضل الرحمان کے تحفظات کو دور کیا جائے گا ۔ پی پی وفد کیساتھ ملاقات میں وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا کہ معاشی اعشاریوں میں حالیہ بہتری،افراط زر کی شرح سنگل ڈیجیٹ،پالیسی ریٹ میں 2 فیصد کمی اورپیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید کمی عوام کو ریلیف پہنچانے کی حکومتی کوششوں کا حصہ ہے۔مجوزہ آئینی ترمیم کا مقصد عوام کو انصاف کی فوری اور موثر فراہمی ہے۔ملاقات میں اتفاق کیاگیاکہ آنے والے دنوں میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ مزید بات چیت اور مشاورت سے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی جائے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ آئین میں ترمیم اور قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے اور پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے، 24 کروڑ عوام نے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا مینڈیٹ دیاہے۔ مجوزہ آئینی ترمیم کا مقصد عوام کو انصاف کی فوری اور موثر فراہمی ہے،آئینی ترمیم پر تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا سلسلہ جاری رہے گا۔