اپریل 2022ء میں عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (نون) نے دیگر سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے حکومت سنبھالی تو پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی فکر میں مبتلا ہوگئی۔ مذکورہ ہدف کے حصول کے لئے عالمی معیشت کے نگہبان آئی ایم ایف سے رجوع کرنا لازمی تھا۔ اس کے دروازے پر دستک دی تو وہ پاکستان کو یاد دلانے کو مجبور ہوا کہ اس کی معیشت سنبھالنے کے لئے عمران حکومت کے ساتھ بھی ایک معاہدہ ہوا تھا۔ اس کی بدولت ملے فوائد سمیٹنے کے باوجود ان شرائط پر عمل درآمد سے انکار کردیا گیا جو پاکستان کی معیشت کو مستحکم بناسکتی تھیں۔ عمران حکومت کے لئے طے ہوئی شرائط کو لہٰذا مزید سخت کرنے کے بعد ہمیں ’’امدادی پیکیج‘‘ فراہم کرنے کا اعلان ہوا۔ دریں اثناء روس یوکرین پر حملہ آور ہوچکا تھا۔ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں پٹرول اور گیس کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ تیل اور گیس کی درآمد پر کامل انحصار کرتے پاکستانیوں کو آسمان کو چھوتی قیمتوں کے ساتھ مزید ٹیکس بھی ادا کرنے پڑے۔ بجلی کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا۔ شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہوئی حکومت مگر اس امر پراطمینان کا اظہار کرتی رہی کہ اس نے ملک دیوالیہ ہونے سے بچالیا ہے۔ عوام کے دلوں میں ناقابل برداشت مہنگائی کی بنیاد پر ابلتے ہوئے غصے کو یہ کہتے ہوئے نظرانداز کرنا شروع کردیا کہ ریاست کو بچانے کی خاطر مسلم لیگ (نون) نے سیاست قربان کردی ہے۔
سیاست کی ’’قربانی‘‘ 8فروری 2024کے روز ہوئے انتخاب میں گج وج کے ساتھ نمایاں ہوگئی۔ تمام تر مشکلات کے باوجود اڈیالہ جیل میں نظربند ہوئے ’’قیدی نمبر804‘‘کی جماعت واحد اکثریتی جماعت بن کر ابھری۔ اس کی حمایت میں پڑے ووٹوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے بہتر یہی تھا کہ تحریک انصاف کو حکومت بنانے کو مجبور کیا جاتا۔ ابتداََ اس ضمن میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی اسے معاونت فراہم کرنے کو آمادہ تھی۔ ’’قیدی نمبر804‘‘ مگر ’’مینڈیٹ چوری‘‘ ہونے کی دہائی مچاتے رہے۔ عملی سیاست کی مبادیات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے وطن عزیز کو ’’انقلاب‘‘ کے لئے تیار کرنا شروع ہوگئے۔
ریاست کو مگر روزمرہّ بنیادوں پر بھی معاملات سنبھالنا ہوتے ہیں۔ وہ ’’انقلاب‘‘ کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتی۔ شہباز شریف لہٰذا ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کو مائل کردئے گئے۔ اب کی بار پیپلز پارٹی نے ان کی بنائی کابینہ میں شمولیت کے بجائے چند آئینی عہدوں کے عوض ان کی حمایت کا فیصلہ کیا۔
وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد شہباز شریف صاحب کو یہ حقیقت نگاہ میں رکھنا چاہیے تھی کہ ان کی جماعت کے پاس اپنے تئیں قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت میسر نہیں ہے۔ انہیں کسی بھی وقت اقتدار سے محلاتی سازشوں کے ذریعے گھربھیجا جاسکتاہے۔ ایسے عالم میں انہیں قومی اسمبلی کے ہر رکن سے مسلسل مشاورت درکار تھی۔ اتحادی جماعتوں کو ہمہ وقت آن بورڈ رکھنا بھی ان کی ذمہ داری تھی۔ ’’سیاسی‘‘ امور پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے شہباز شریف مگر ایک ٹیکنو کریٹ کی طرح اپنے پسندیدہ افسروں کے ذریعے ’’ٹاپ ڈائون‘‘ ماڈل پر مبنی ’’گورننس‘‘ متعارف کروانے میں مصروف ہوگئے۔ ملکی سیاست کے چند تلخ حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ امید بھی باندھ لی کہ مشکل وقت میں ’’وہ‘‘ ان کی حکومت کو سہارا فراہم کریں گے۔ عمران خان بھی تو ’’سیم پیج‘‘ کی برکتوں سے اپنی جماعت کے اراکین اسمبلی کو نظرانداز کرنے اور اپوزیشن جماعتوں کو دیوار سے لگانے کے باوجود تین سال سے زیادہ عرصے تک نہایت اطمینان سے حکومت چلاتے رہے تھے۔
’’ان‘‘ کی مگر اپنی ترجیحات بھی ہوتی ہیں اور کوئی بھی سیاستدان فقط ’’ان‘‘ کی حمایت کے سہارے ہی اقتدار میں نہیں رہ سکتا۔ خلق خدا کو بھی اہمیت دینا ہوتی ہے اور ان کے مسائل کے حل فراہم کرنے کے علاوہ برسراقتدار جماعت کو ایک ’’بیانیہ‘‘ بھی تشکیل دینا پڑتا ہے۔ ’’ان‘‘ کی حمایت اور افسر شاہی کی ذہانت پر کامل انحصار نے لیکن مسلم لیگ (نون) کو کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے ضروری تصور ہوتی توانائی سے قطعاََ محروم کردیا ہے۔ اس کے برعکس ’’قیدی نمبر804‘‘ کے حامی ایک طاقتور بیانیے سمیت اپنی جماعت کو مسلسل متحرک رکھے ہوئے ہیں۔
ٹھوس سیاسی حقائق کے تناظر میں ہماری اعلیٰ عدالتوں کے چند عزت مآب ججوں نے عوام میں مقبول جماعت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ حکومت اس کے رویے سے بوکھلا گئی۔ روزانہ کی بنیاد پر اپنا تحفظ یقینی بنانے کی کاوشوں میں مصروف ہوگئی۔ عدالتوں سے سہمی حکومت کیلئے مگر رواں برس کے جولائی میں سپریم کورٹ کے 8عزت مآب ججوں کی اکثریت نے یہ فیصلہ سنایا کہ تحریک انصاف کو 8فروری 2024ء کے روز ملے ووٹوں کے تناسب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں عورتوں اور اقلیتوں کے لئے مختص نشستیں فراہم کی جائیں۔ حکومت نے مذکورہ فیصلے پر عمل درآمد کے بجائے عدالتوں کو ایک بھاری بھر کم ’’ریفارم(اصلاحی) پیکیج‘‘ کے ذریعے ’’درست‘‘ سمت پر ڈالنے کی تیاری شروع کردی۔
موجودہ عدالتی ڈھانچے کو حکومتی توقع کے مطابق ڈھالنے کے لئے آئین میں ترامیم درکار ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں دو تہائی اکثریت کے بغیر مطلوبہ ترامیم کا حصول ممکن نہیں۔ حکومت مگر اس کے حصول میں ڈٹ گئی۔ گزرے ہفتے اور اتوار کے دن خلاف معمول دونوں ایوانوں کے اجلاس طلب کرلئے گئے۔ مجھ سادہ لوح نے فرض کرلیا کہ حکومت نے نہایت خاموشی سے اپنا ہوم ورک مکمل کرلیا ہے۔ کوئی ایسی ’’جگاڑ‘‘ ڈھونڈلی ہے جس کے ذریعے جولائی میں آئے فیصلے کے باوجود تحریک انصاف کی حمایت سے قومی اسمبلی میں پہنچے چند اراکین ’’آزاد‘‘ شمار ہوں گے۔ ان ’’آزاد‘‘ ارا کین میں سے آئینی ترمیم کے حامی تلاش کرلئے گئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے کا آغاز ہوتے ہی جمعیت العلمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر یکے بعد دیگرے چند مختصر تقاریرکیں۔ ابتداََ وہ حکومت کو آئینی ترمیم کے ارادے کو ترک کرنے کے مشورے دیتے سنائی دیئے۔ اچانک ہی مگر انہوں نے ’’فارم 45اور 47‘‘ کے مابین فرق کو بھلانے کا مشورہ دیا اور حکومت کو یہ تجویز دیتے سنائی دیئے کہ اگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی کے لئے کوئی ’’بہتر راستہ‘‘ مل سکتا ہے تو وہ اس کے حصول کیلئے پیش ہوئی آئینی ترمیم کی منظوری میں حکومت کا ساتھ دینے کو آمادہ ہوں گے۔
چیف جسٹس کی تعیناتی کے لئے مولانا کی دکھائی راہ نے حکومت کو گمراہ کردیا۔ وہ مطمئن ہوگئی کہ جے یو آئی اس کی حمایت کو بالآخر آمادہ ہوگئی ہے۔ ہفتے کو لہٰذا دونوں ایوانوں کے اجلاس طلب کرلئے گئے۔ کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد مگر آئینی ترامیم وہاں پیش نہ ہوسکیں۔ اتوار کے دن بھی شام 4بجے سے رات کے گیارہ بجے تک مولانا فضل الرحمن کو رام کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔ پیر کی صبح اٹھا ہوں تو مجھے مختلف ذرائع سے ان ترامیم کا مسودہ مل چکا ہے جنہیں منظور کروانے کے بعد حکومت عدالت سے خیر کی توقع باندھ سکتی ہے۔ ہفتے اور اتوار کے دن ضائع کرنے کی وجہ سے مگر حکومت کی ساکھ کو شدید زک پہنچی ہے۔ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں یہ لکھنے کو مجبور ہوں کہ شہباز حکومت اور پاکستان مسلم لیگ (نون) کی ساکھ کو گزشتہ دو دنوں میں جو زک پہنچی ہے اس کے ازالے کے لئے نجانے کتنے برس درکار ہوں گے۔