وَمَااَرسَلنٰکَ اِلَّارَحمَۃً لِّعٰلَمِینَ!!!!!!

نبی کریم، تاجدار انبیاء ، خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی مبارک سیرت ہی ہمارے لیے بہترین نمونہ اور ہدایت ہے۔ زندگی کا کوئی بھی معاملہ ہو ہمارے لیے ہدایت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی مبارک سیرت پر عمل سے ہی ممکن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی سنتوں پر عمل سے ہی ہمیں نجات ملنی ہے۔ اگر ہم آج مشکلات میں ہیں، تکالیف کا سامنا ہے، زندگی کے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم ہدایت، رہنمائی، نجات اور فلاح کے اس راستے کو بھلائے بیٹھے ہیں۔ جس راستے پر چلتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے فتوحات کے جھنڈے گاڑے۔ ہم اس راستے پر نہیں ہیں جو ہدایت کی طرف لے کر جاتا ہے اور وہ راستہ تاجدار انبیاء خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی مبارک سیرت پر عمل کا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاترجمہ: بے شک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے اس کے لیے کہ اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرے
ہمیں آج یہ سوچنا اور دیکھنا ہے کہ کیا ہم عملی زندگی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی پیروی کر رہے ہیں۔ ہم کاروبار کریں، ہم ملازمت کریں، ہم حکومت کریں، ہم۔استاد بنیں، بحثیت والدین، رشتہ داروں کے ساتھ برتاؤ،  ہمسائے سے تعلقات، بہن بھائیوں سے میل جول، اگر کوئی زیادتی کرے تو ہمارا ردعمل کیا ہے، اگر کوئی نقصان پہنچائے تو ہمارا جواب کیا ہے، اگر کوئی اذیت دے تو ہم جواب کیسے دیتے ہیں۔ کیا ہم کوئی کام کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی مبارک سیرت پر عمل کرتے ہیں۔ اگر کوئی سائل ہے اس سے کیا برتاؤ کرتے ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے دس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی خدمت کی، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے کبھی مجھے اف کا کلمہ بھی نہیں فرمایا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا۔ کیا آج ہمارے روئیے ایسے ہیں، کیا ہمارے ماتحت کام کرنے والے ظلم و ستم سے محفوظ ہیں۔ کیا ہمارے ماتحت کرنے والے ذمہ داریاں عمدہ و احسن طریقے سے نبھاتے ہیں۔ کیا ملازمین کو یاد نہیں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ کہ ان اللہ لا یحب الخائنین (ترجمہ )بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم تشریف لے جا رہے تھے، میں بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے ساتھ چل رہا تھا، آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے تھے (چلتے چلتے) حضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کو ایک گنوار بدو نے پکڑ لیا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی چادر پکڑ کے اس زور سے کھینچا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم اس بدو کے سینے سے آ لگے اور میں نے دیکھا کہ اس بدو کے زور سے چادر کھینچنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی گردن مبارک کے ایک طرف نشان پڑ گیا۔ پھر اس گنوار بدو نے کہا کہ اے محمد تمہارے پاس جو اللہ کا مال ہے تم (اپنے آدمیوں کو) حکم دو کہ وہ اس میں سے مجھ کو دیں (حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ ؐ نے اس گنوار بدو کی طرف دیکھا (اور بجائے غصہ فرمانے کے) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم اس کی اس حرکت پر ہنسے اور اس کو کچھ دینے کا حکم دیا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (ترجمہ)اور اللہ و رسول کے فرماں بردار رہو اس اْمید پر کہ تم رحم کیے جاؤ
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (ترجمہ)اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔
ہماری زندگیوں میں کیا عملی طور پر اطاعت نظر آتی ہے۔ آج سب سے زیادہ کمی ہی اس چیز کی ہے۔ ہم بلند و بانگ دعوے ضرور کرتے ہیں لیکن عمل سے دور بلکہ بہت دور بہت دور ہیں۔
حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کیا خْلق تھا جس کی حق تعالیٰ نے قرآن شریف میں تعریف کی ہے؟ حضرت صدیقہ رضی رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ: ’’آپ کا خلق قرآن تھا‘‘ یعنی جس چیز کو حق تعالیٰ نے اچھا فرمایا ہے وہی آپ کی طبیعت چاہتی تھی اور جس چیز کو حق تعالیٰ نے قرآن شریف میں برائی سے یاد کیا ہے اس سے آپ کی طبیعت کو نفرت تھی۔
علماء نے کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خلق عظیم وہ ہے جو حق تعالیٰ نے اس آیت میں تعلیم فرمایا ہے (ترجمہ)‘‘ یعنی ’’لازم پکڑ معاف کرنے کو اور حکم کر نیک کام کا اور کنارہ کر جاہلوں سے‘‘ اور حقیقت میں اللہ کی طرف لوگوں کو بلانے میں اور دینِ حق کی تائید کرنے میں اس سے سخت تر کوئی چیز نہیں ہے۔ حدیث شریف میں وارد ہے(ترجمہ) یعنی ’’میں اس واسطے مبعوث ہوا ہوں کہ اگلے تمام پیغمبروں کی بزرگی اور اچھائیوں کو تمام اور پورا کروں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ترجمہ:اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔حضرت جابرؓسے روایت ہے نبی کریم ؐمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے اخلاق کے درجات مکمل کرنے اور اچھے اعمال کے کمالات پورے کرنے کے لیے مجھ کو بھیجا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓسے روایت ہے،رسولِ اکرمؐمَ نے تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا’’کیا میں تمہیں اس شخص کے بارے میں  نہ بتائوں جو قیامت کے دن تم میں سب سے زیادہ مجھے محبوب اور سب سے زیادہ میری مجلس کے قریب گا۔ہم نے عرض کی: یا رسولَ اللہؐ  کیوں نہیں ! ارشاد فرمایا’’یہ وہ شخص ہو گا جس کے اَخلاق تم میں سب سے زیادہ اچھے ہوں گے۔
نعتیہ کلام افتخار عارف
دل و نگاہ کی دنیا نئی نئی ہوئی ہے 
درود پڑھتے ہی یہ کیسی روشنی ہوئی ہے 
میں بس یوں ہی تو نہیں آ گیا ہوں محفل میں 
کہیں سے اذن ملا ہے تو حاضری ہوئی ہے 
جہان کن سے ادھر کیا تھا کون جانتا ہے 
مگر وہ نور کہ جس سے یہ زندگی ہوئی ہے 
ہزار شکر غلامان شاہ بطحا میں 
شروع دن سے مری حاضری لگی ہوئی ہے 
بہم تھے دامن رحمت سے جب تو چین سے تھے 
جدا ہوئے ہیں تو اب جان پر بنی ہوئی ہے 
یہ سر اٹھائے جو میں جا رہا ہوں جانب خلد 
مرے لیے مرے آقا نے بات کی ہوئی ہے 
مجھے یقیں ہے وہ آئیں گے وقت آخر بھی 
میں کہہ سکوں گا زیارت ابھی ابھی ہوئی ہے
نعتیہ کلام ساغر صدیقی
ہمیں جو یاد مدینے کا لالہ زار آیا 
تصورات کی دنیا پہ اک نکھار آیا 
کبھی جو گنبد خضرا کی یاد آئی ہے 
بڑا سکون ملا ہے بڑا قرار آیا 
یقین کر کہ محمدؐ کے آستانے پر 
جو بد نصیب گیا ہے وہ کامگار آیا 
ہزار شمس و قمر راہ شوق سے گزرے 
خیال حسن محمدؐ جو بار بار آیا 
عرب کے چاند نے صحرا بسا دئے ساغر 
وہ ساتھ لے کے تجلی کا اک دیار آیا 
مظفر وارثی کا نعتیہ کلام
تو امیر حرم میں فقیر عجم 
تیرے گن اور یہ لب میں طلب ہی طلب 
تو عطا ہی عطا میں خطا ہی خطا 
تو کجا من کجا 
تو ہے احرام انور باندھے ہوئے 
میں درودوں کی دستار باندھے ہوئے 
کعبہ عشق تو میں تیرے چار سو 
تو اثر میں دعا تو کجا من کجا 
میرا ہر سانس تو خوں نچوڑے میرا 
تیری رحمت مگر دل نہ توڑے میرا 
کاسہ ذات ہوں تیری خیرات ہوں 
تو سخی میں گدا تو کجا من کجا 
تو حقیقت ہے میں صرف احساس ہوں 
تو سمندر ہے میں بھٹکی ہوئی پیاس ہوں 
میرا گھر خاک پر اور تری رہ گزر 
سدرۃ المنتہیٰ تو کجا من کجا 
ڈگمگاؤں جو حالات کے سامنے 
آئے تیرا تصور مجھے تھامنے 
میری خوش قسمتی میں تیرا امتی 
تو جزا میں رضا تو کجا من کجا 
دوریاں سامنے سے جو ہٹنے لگیں 
جالیوں سے نگاہیں لپٹنے لگیں 
آنسوؤں کی زباں میری ہے ترجماں 
دل سے نکلے سدا تو کجا من کجا

ای پیپر دی نیشن