اللہ رب الغزت نے آپ کو دونوں جہانوں کیلءے رحمت بنا کر بھیجا

مولا نا محمد امجد خان     
اللہ کریم نے نبوت کے جس سلسلے کا آغاز حضرت آدم ؑسے کیا تھا اس کا اختتام حضرت محمّدؐ کی ذات پر کر دیا گیا۔آپؐ اللہ کے آخری نبی بن کر آئے۔ہر نبی کو اللہ پاک نے خاص مقام ،شان، رتبہ اور رفعت نصیب فرمائی لیکن رسول مکرم ؐ کو جو خصوصیات دی گئیں وہ کسی اور پیغمبر کو نہ ملیں۔ آپ رحمت اللعالمین ہیں یعنی آپؐ دونوں جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔سیرت کے اوراق پر یہ خوبصورت واقعہ درج ھے کہ صحابہ کرامؓ کی مجلس لگی ہوئی تھی، آپس میں گفتگو جاری تھی کہ پروردگارِ دو عالم نے حضرت آدمؑ کو صفی اللہ کا لقب، حضرت نوحؑ کو نجی اللہ، حضرت ابراہیم ؑکو خلیل اللہ، حضرت اسماعیلؑ کو ذبیح اللہ، حضرت موسی ؑکو کلیم اللہ اور حضرت عیسیٰ ؑکو روح اللہ کا لقب دیا تورب ذوالجلال نے ہمارے پیغمبر کو کیا لقب دیا ہے ؟ اسی اثناء میں رسول اللہ ؐ تشریف لائے آپؐ نے صحابہؓ سے پوچھا کیا بات ہو رہی تھی عرض کیا کہ ہم یہ گفتگو کر رہے تھے تو آپؐ نے فرمایا اللہ نے تمہارے نبی کو حبیب اللہؐ بنا کر بھیجا ۔آپؐ کے جد امجد حضرت ابراہیم ؑکے لقب خلیل کو دیکھیں اور رسول اللہؐکے لقب حبیب کو دیکھیں تو بڑا واضح مقام نظر آتا ہے کہ خلیل اس کو کہتے ہیں جو رب کی رضا چاہتا ہے اور حبیب اللہ اس کو کہتے ہیں کہ خدا جس کی رضا چاہتا ہے۔
  حضورؐکے لاتعداداسماء ہیں ان میں دو نا م زیا دہ معروف ہیں ایک حضرت محمد ؐ دوسرا حضرت احمد ؐجب آپ تشریف لائے تو رب العزت نے خود آپ ؐکی زبان فیض تر جمان سے اعلان کروایا آپ فر مادیں اے انسانو! میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہو ں آپ کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے رب کائنات نے فر ما یا میرے محبوب ؐکی عظمت اور شان یہ ہے کہ صرف نبیؐ ہی نہیں بلکہ خاتم النبین ہیں ۔ 
اللہ رب العزت نے حضورکے بے پناہ اوصاف حمیدہ سے اور عظمتوں سے نواز ا ان میں ایک عظمت اور شان رحمت ہے آپ کے بارے میں اللہ قرآن میں فر ماتے ہیں کہ آپ دونوں جہانوں کے لیئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔آپ نبی آخر الزماں ؐہیں آپؐکے والد ماجد کا نام حضرت عبد اللہ ہے آپ نے اللہ کی عبادت کا حق ادا کیا ہے یعنی اتنی عبادت کہ پاؤں مبارک پر بھی ورم آجا تا تھا ،آپ کی والدہ ماجدہ کا نام حضرت آمنہ ہے، آمنہ کے لعل نے دنیا کو امن کا پیغام دیا یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ ؐ کی آمد سے قبل انسانیت جاں بلب تھی آپؐکی بعثت کو رب کائنات نے انسانیت پر احسان قرار دیا ۔
آپ نے رب کائنات کا پیغام صفا پہاڑی پر کھڑے ہوکر دیا جس میں فر ما یا کہ اللہ کو معبود اور مسجود حقیقی مانواور وہی قادر مطلق ہے اور ساتھ ہی رسالت و نبوت کا اعلان فرمایا تو پیغام توحید دیا تو پھر کیا تھا کفر دین حق کے خلاف آن کھڑا ہوا۔ رحمت دو عالمؐ جب وادی طائف میں تشریف لے گئے تو آپ نے پیغام تو حید دیا تو ظالموں نے آپ  پر پتھر بر سانے شروع کر دیئے آپ کی ایک بات نہ سنی اور ظلم کی انتہاء کر دی جس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے اس موقع پر فرشتے آئے عرض کر نے لگے یا رسول اللہؐ اگر آپ چاہیں تو دو نوں پہاڑوں کو ساتھ ملاکر ان کو ملیامیٹ کر دیں لیکن نبی رحمتؐ نے ارشاد فر ما یاکہ یہ نہیں جانتے کہ یہ کس کو پتھر مار رہے ہیں میں امید رکھتا ہوں کہ ان کی نسلوں سے آنے والے میرے مشن کے علمبردار ہوں گے اس نازک مو قع پر بھی آپ ؐ نے بد دعا کے بجائے ان کی ہدایت کی دعا فر مائی۔جب نبی رحمتؐ مکہ میں فاتح بن کر داخل ہو ئے تو اس موقع پر جان نثاروں نے آواز بلند کی کہ آج تو ظالم سے انتقام لینے کا دن ہے، لیکن جب پیغمبر رحمت کو اطلاع ملی تو فرمایا آج تو رحمت کا دن ہے کیونکہ رحمت العالمینؐ آرہے ہیں اس نازک موقع پر بھی نبی رحمت ؐنے عام معافی کا اعلان فر ما یا۔ محمد مصطفیٰ ؐ نے  اپنے ابدی پیغام میںخطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر انسانیت کے لئے وہ عظم تر ین منشور پیش فر ماد یا جو رہتی دنیا تک ہم سب کے لئے ہدایت کا ذریعہ رہے گا۔

ای پیپر دی نیشن