بے مثل نبی آخرالزماں کی ولادت مبارک

Sep 17, 2024

علامہ منیر احمد یوسفی …

علامہ منیر احمد یوسفی

’’ماہِ ربیع الاوّل شریف اِسلامی کیلنڈر کا تیسرا مہینہ ہے سب سے بہتر اورحق بات یہ ہے کہ جو کچھ اِس ماہِ مبارک میں ذکر کیا گیا ہے ‘اُس میںسے نبی آخرالزماں‘ حبیب ِکبریا‘ امام الانبیاء حضور نبی کریم ؐ کی ولادتِ باسعادت اور وصالِ پاک ہے ۔آپ ؐ  سوموار کے دن طلوعِ فجر کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے ‘اُس وقت پیدا ہوئے جبکہ نہ رات کا اندھیرا تھا اور نہ ہی دن کا اُجالا تھا۔آپؐ کی ولادت باسعادت کے مقدس لمحات سے رات کے حصّے کو بھی نوازا گیا اور دن کے حصّے کو بھی نوازا گیا ۔تاکہ نہ رات دن پر ناز کر سکے اورنہ دن رات پر‘بلکہ دونوں لمحات فیضِ یاب ہوں۔نبی کریمؐ کی ولادت باسعادت اور جلوہ گری‘ اﷲ تبارک وتعالیٰ کی تمام نعمتوں سے بڑی نعمت یعنی نعمت ِکبریٰ ہے۔ شیخ المحدثین حضرت شیخ عبد الحق محدث  اپنی کتاب’’ مَاثَبَتَ مِنَ السُّنَّۃَ  ‘‘  میں لکھتے ہیں: (رات اور دن کے حصّوں میں ولادت کی نسبت سے) لیلۃ المیلاد، لیلۃ القدر سے افضل ہے ۔آپ دلیل پیش فرماتے ہیں :وہ رات جس(کے حصّہ) میں نبی کریمؐ  پیدا ہوئے وہ لیلۃ القدر سے اِس لئے افضل ہے کہ اُس (کے حصّہ) میں آپ ؐ  کی ذات شریف کا ظہور مبارک ہوااور لیلۃ القدر آپ ؐکو عطا ہوئی۔( آ پؐ  تشریف لائے تو لیلۃ القدر اُمّت کو ملی) لیلۃ القدر آپ ؐکو عطا ہونے سے مشرف ہوئی۔
  کوئی آپ  کو مانے یا نہ مانے ہر کوئی آپ  ؐکی پیدائش کے فیوض وبرکات حاصل کررہاہے  اور آپؐ کی ذاتِ مقدسہ کے صدقہ میں ہی زمین وآسمان کی تمام مخلوقات پر اﷲ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں عام ہیں۔قرآنِ مجید میں رسول کریمؐ  کو’’ نِعْمَتَ اللّٰہِ‘‘ فرمایا گیا ہے جن کا کفّارومشرکین اور یہود ونصاریٰ نے انکارکیا۔ ارشاد ِ خداوندی ہے:- کیا تم نے اُنہیں نہ دیکھا جنہوں نے اﷲ تبارک و تعالیٰ کی نعمت، ناشکری سے بدل دی اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر لا اتارا۔(ابراہیم: ۲۸) اِس آیتِ مبارکہ میں نعمت سے مراد حضرت محمد ؐ ہیں۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے رسول کریمؐ کو جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ حضور ؐ    کائنات پر اﷲ تبارک و تعالیٰ کا بہت بڑا فضل اور بہت بڑی رحمت ہیں۔ فضل و رحمت کے شکرانے میں اﷲ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ’’اے محبوبؐ  آپؐ  فرما دیں کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ ہی کا فضل اور اُسی کی رحمت ہے اور چاہئے کہ اِس پر خوشی کریں۔‘‘(یونس: ۵۸) رسول کریم ؐ اور قرآنِ مجید ‘ اﷲ تبارک و تعالیٰ کا فضل اور رحمت ہیں ۔ لہٰذا ربیع الاول شریف میں خصوصی اہتمام کے ساتھ رسول کریمؐ کی ولادت باسعادت کی خوشی منانا اور رمضان المبارک کے مہینہ میں نزول قرآنِ مجید کا جشن منانا بہت بڑی سعادت ہے۔
محدثینِ کرام نے ولادتِ مصطفیٰ کریمؐ کی عظمت کے مختلف ابواب کے تحت حضرت محمد مصطفیؐ کے حسن وجمال کو بیان فرمایاہے‘ امام بخاری نے صحیح بخاری میں ’’ کتاب المناقب‘‘میں ایک باب باندھا ہے ’’بَابُ صِفَۃِ النَّبِیِّؐ ‘‘ اُس میں تحریر فرماتے ہیں ۔حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے ‘فرماتے آپ ؐکاچہرہ (مبارک)سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت تھا اور آپؐ سب لوگوں سے زیادہ خوش خلق تھے۔ آپؐ  نہ تو بہت لمبے (قدکے ) تھے اورنہ ہی پست قد تھے۔امام اہلسنّت‘ امام احمدرضافاضلِ بریلوی  نے کیا خوب فرمایا:بیاض سے مراد وہ سفیدی ہے جس میں سرخی کی جھلک ہو۔ آپؐ کا رنگ نہ تو بالکل سفید تھا اور نہ ہی بالکل سرخ بلکہ سرخ سفیدملاجلا ،جو نہایت خوبصورت رنگ ہے۔
خوشبودار جسم مبارک:
حضرت انسؓ فرماتے ہیں ‘میںرسول کریمؐ    کا حسن کما حقہ ٗبیان نہیں کرسکتا بس اتنا سمجھ لو میری آنکھ نے نہ تو آپؐ سے پہلے ایسا حسین دیکھا ہے اور نہ ہی آپؐ کے پردہ فرمانے کے بعد۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی ’’اشعۃ للمعات‘‘ میں لکھتے ہیں‘ بعض روایات میں جو آیا کہ جب آپؐ   لوگوں میںکھڑے ہوتے تو تمام لوگوں سے بلند دکھائی دیتے ۔یہ طول قامت کی وجہ سے نہیں بلکہ عزّت، رفعت، عظمت اور حسن کی وجہ سے ہے اور یہ آپؐ   کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے ۔حضرت سماک بن حرب ‘حضرت جابر بن سمرہؓ  سے روایت کرتے ہیں:’’رسول کریمؐ  کشادہ دہن تھے‘  سُرخ وسفید آنکھ والے ‘پتلی ایڑیوں والے تھے۔حضور نبی کریمؐ کے بال مبارک سیدھے اور کناروں پر خم دار تھے یعنی کنڈلوں والے بال مبارک تھے ۔حضرت جابر بن سمر ہؓ  سے روایت ہے ‘فرماتے ہیں: ’’میںنے نبی کریمؐ کو چاندنی رات میں دیکھا تو میں رسول کریمؐ  اور چاند کو دیکھنے لگا آپ ؐنے سرخ دھاریوںوالا (سرخ جوڑا) پہنا ہو ا تھا اور میری نظر میں رسول کریمؐ چاند سے زیادہ حسین نظر آرہے تھے‘‘۔ حضورؐ کے بال مبارک‘ خدوخال مبارک‘گفتار وکردار سب ہی حسین تھے نبی کریمؐ حسن کا مرکز ہیں‘جہاں سے حسن تقسیم ہوتا ہے ۔آپؐ  کے چہرہ ٔمبارک میں رعب دبدبہ اور وقار کی جلو ہ گری تھی جو اچانک دیکھتا تو مرعوب ہوجاتا ۔مگر اخلاقِ کر یمانہ ایسا تھا کہ چند روز نبی کریم ؐکے پاس رہتا تو آپؐ سے مانوس ہوجاتا ۔آج بھی جوآپؐ کے دربار انورمیں حاضر ہوتاہے اُس کا وہا ں سے ہٹنے کو دل نہیں چاہتا۔حتیٰ کہ وہاں  سے آتے ہوئے آنکھوںسے میں آنسو جاری ہوتے ہیں۔

مزیدخبریں