(ن) لیگ کی حکومت عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم منظور کرانے میں ناکامی پر بہت شرمندگی کا شکار ہے۔
دو افراد محسن نقوی اور اعظم نذیر تارڑ کو آئینی ترمیم کے معاملے پر مولانا سے مذاکرات اور انہیں آن بورڈ لینے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی لیکن سیاسی جوڑ توڑ میں ان دونوں کی ناتجربہ کاری کے باعث اسے خفیہ نہیں رکھا جا سکا اور معاملہ قبل از وقت منظر عام پر آگیا۔جو کام خاموشی سے کرنے کا تھا اُسے قبل از وقت ہی ٹی وی پر کھول کر پیش کردیا گیا جس کے باعث حکومت کے لیے پورے معاملے کا ستیاناس ہوگیا جس وقت پیپلز پارٹی، دیگر اتحادی شراکت دار حتیٰ کہ نون لیگ کے کئی رہنما سوچ بچار کر رہے تھے اور انہیں یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ مولانا کو بھی اعتماد میں لے لیا گیا ہے، اُس وقت انہیں یہ دیکھ کر حیرانگی ہوئی کہ مولانا نے تو مجوزہ آئینی ترمیم کا مسودہ دیکھا ہی نہیں۔اس پورے معاملے میں اسحاق ڈار بعد میں شامل ہوئے اور وزیراعظم بھی مولانا کی رہائش گاہ جا پہنچے، ایوانِ صدر نے بھی کوشش کی جب کہ بلاول بھی جے یو آئی ف کے سربراہ سے ملنے کے لیے گئے لیکن حکومت کے لیے کوئی راہ نہ نکلی۔سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسے معاملات میں سب کچھ حتمی طے ہونے کے بعد باتیں سامنے آتی ہیں لیکن اس معاملے میں مولانا سے کوئی ڈیل کیے بغیر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس طلب کر لیے گئے۔آئینی ترمیمی پیکج پہلے تو گزشتہ بدھ کو پیش کیے جانے کا ارادہ تھا لیکن عددی قوت پوری نہ ہونے کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی۔ پی ٹی آئی سے ووٹوں کی مطلوبہ تعداد پوری تھی لیکن مولانا کی وجہ سے معاملہ خراب ہوگیا جس سے حکومت بالخصوص ن لیگ کو شدید خفت کا سامنا کرنا پڑا۔
ن لیگ کے ایک ذریعے کے مطابق، مولانا کو منانا اب بہت مشکل ہوگا لیکن ایک اور ذریعے کا کہنا تھا کہ یہ کام پورا کرنے کے لیے زبردست کوشش کی جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس ہدف کے حصول کے سوا کوئی آپشن نہیں تاکہ حکمران جماعت اور شہباز حکومت کو بھاری قیمت چکانے سے بچایا جا سکے۔ن لیگ کے ایک رہنما کا کہنا تھا کہ ہفتے کے آخری دنوں میں ہوئی گڑ بڑ کے باوجود ہم اس معاملے کو مردہ قرار دیکر چھوڑنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس یہ ترامیم 15 روز میں منظور کرانے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس عددی قوت تھی، ہمارے پاس پیشکش موجود تھیں لیکن مولانا کی وجہ سے معاملہ تاخیر کا شکار ہوگیا۔ذرائع نے مزید کہا کہ حکومت اس معاملے کو مردہ قرار دیکر کر ایسے ہی چھوڑنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ذرائع کا خیال ہے کہ شہباز شریف حکومت کا مستقبل اور سیاسی استحکام ان ترامیم پر منحصر ہے اور ذرائع نے بتایا کہ ہمیں جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس بننے کی کوئی فکر نہیں، کچھ اور معاملات ہیں جو ہمارے لیے باعثِ پریشانی ہیں۔ذرائع کے مطابق، ن لیگ اور پیپلز پارٹی مولانا کی حمایت کے حصول کے لیے اپنی تمام تر کوششیں کریں گی۔ ذرائع کے مطابق، ’ہمیں گورنر خیبر پختونخوا کے عہدے اور جے یو آئی ایف کے لیے وفاقی کابینہ میں کچھ عہدوں کی پیشکش ہوئی ہے۔‘ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ جے یو آئی ایف کو سینیٹ میں دو نشستیں دینے پر بھی غور کیا جارہا ہے۔