اس نے کبھی اپنے ذہن میں نہیں سوچا تھا کہ وہ روایتی خنجر اور تلواریں بنانے کے پیشے میں ایسا ماہر پیشہ ور بن جائے گا جو سعودی ورثے کا ایک لازمی حصہ بن جائے گا۔ تاہم یہ معاملہ اس پر خود ہی مسلط ہوگیا۔ یہ پاکستانی رہائشی محمد ریاض ہیں جنہوں نے خنجر اور تلواریں بنانے میں اختصاص کیا ہے۔ وہ اس صنعت میں تین دہائیوں تک اپنے والد اور دادا سے دھات سازی کی بنیادی باتیں سیکھتے رہے۔ انہوں نے اپنے اس کام کے لیے جنوبی سعودی عرب کا سفر کیا۔ مہنگی دھاتوں اور ہاتھ سے بنی ہوئی سجاوٹ سے آرٹ کے خوبصورت نمونے تیار کیے ہیں۔محمد ریاض جو اس وقت النماص میں مقیم ہیں۔ وہ منفرد ٹکڑوں کو بنانے کے لیے نسل در نسل منتقل ہونے والی تکنیکوں کا استعمال کرتے ہیں۔ دھات اور لکڑی کے مناسب مواد کے انتخاب سے کام شروع کرتے اور پھر مواد کو شکل دینے اور سجاوٹ کے عمل سے گزارتے اور ایک حتمی چیز تیار کردیتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ جو خنجر اور تلواریں بنانے میں ایسے ماہر بن گئے کہ ان کی بنائی گئی اشیا کو گاہکوں کی نظروں میں ایک شاہکار سمجھا جانے لگا۔ ریاض جو خنجر بناتا ہے وہ صرف ایک آلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا ورثہ ہے جو اپنے اندر قدیم کہانیوں اور روایات کا مجموعہ رکھتا ہے۔محمد ریاض کو النماص جنوبی سعودی عرب میں مقامی کمیونٹی کی طرف سے عزت اور قدر حاصل ہے ۔ وہ علاقے میں ابو ریاض کے نام سے مشہور ہوئے۔ یہ ایک عرفی نام ہے جو اس علاقے کے لوگوں کے ساتھ ان کی قربت کا اظہار ہے۔ النماص کے لوگوں نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ ابو ریاض ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ وہ نہ صرف ہمارے لیے خنجر اور تلواریں بناتے ہیں بلکہ اپنے فن کے ذریعے اس ورثے کو زندہ رکھنے میں بھی کردار ادا کر رہے ہیں۔
خنجر اور تلواریں بنانے میں ابو ریاض کا سفر چیلنجوں سے بھرپور ہے۔ جیسے جیسے وقت بدلا اور جدید آلات پر انحصار بڑھتا گیا ابو ریاض جیسے روایتی کاریگروں کو اپنے ہنر کو برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم معیار اور مہارت کی پابندی کرنا ہی ان کی مسلسل کامیابی کی بنیادی وجہ تھی۔ انہوں نے بتایا کہ دستکاری میں صبر اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ صرف روزمرہ کا کام نہیں ہے بلکہ یہ ایک فن اور جذبہ ہے جو میرے بنائے ہوئے ہر ٹکڑے میں آشکار ہوتا ہے۔