پاکستان امرےکہ کا طفےلی نہےں اتحادی ہے....(۱)

خطہ مےں دہشت گردی کے خلاف جنگ مےں پاکستان اور امرےکہ کے نکتہ نگاہ مےں واضح فرق ہے۔ اس فرق کی وجہ ےہ ہے کہ پاکستان اس جنگ مےں زبردست نقصان اٹھانے ، جانی و مالی قربانےاں دےنے کے باوجود علاقہ کے جغرافےہ اور تارےخ سے چشم پوشی نہےں کر سکتا۔ ہمےں اسی علاقہ مےں رہنا ہے۔ ہم اپنے پڑوسےوں کو تبدےل نہےں کر سکتے۔ امرےکہ کو آزادی ہے کہ مقصد کے حصول کے بعد ےا اس کے بغےر جب چاہے علاقے سے رخصت ہو جائے۔ امرےکہ پہلے بھی اےسا کر چکا ہے۔ ہر چند کہ اس مرتبہ امرےکہ زور دے کر ےہ بات کہہ رہا ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کو تنہا چھوڑ کر نہےں جا ئے گا۔ لےکن امرےکہ کا ےقےن کر لےنا آسان بات نہےں۔ بالخصوص جب کہ اپنے ملک سے ہزاروں مےل دور مسلسل اےک مہنگی جنگ مےں مصروف رہنا اےسی بات نہےں جو امرےکی رائے عامہ آسانی سے قبول کر لے گی۔ اس جنگ کی مخالفت مےں آوازےں بلند ہونا شروع ہو گئی تھےں، اسی وجہ سے امرےکی صدر اوبامہ نے جولائی 2011سے امرےکی افواج کے انخلاءکا اعلان کےا تھا۔ اس اعلان پر کس قدر عمل ہوتا ہے وقت ہی بتائے گا۔
امرےکہ اور پاکستان کے تعلقات تناﺅ کا شکار رہے ہےں۔ امرےکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان ہر ایشو کو امرےکی آنکھوں سے دےکھے اور امرےکی ذہن سے سوچے۔ جو ممکن نہےں۔ پاکستان کا اپنا نکتہ نگاہ ہے جو خطہ مےں ہمارے قومی مفادات سے عبارت ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے متعدد بار دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات مےں بدمزگی پےدا ہو جاتی ہے۔ امرےکہ کی مجبوری ہے کہ وہ ےہ جنگ پاکستان کے بغےر لڑ نہےں سکتا۔ ہماری مجبوری ےہ ہے کہ جنگ جو اب ہماری جنگ ہو چکی ہے اسے کامےابی سے جاری رکھنے کےلئے ہمےں بھی امرےکہ کی ضرورت ہے۔ گوےا دونوں ملک دل سے چاہےں ےا نہ چاہےں جنگ مےں اےک دوسرے کے بغےر گزارا نہےں کر سکتے۔ جنگ مےں اتار چڑھاﺅ کے علاوہ CIA کے اےک کانٹرےکٹر Raymond Davis کے ہاتھوں دو پاکستانےوں کی ہلاکت اور اسی قضےہ مےں اےک تےسرے پاکستانی کے موٹر سے کچلے جانے پر امرےکہ کے خلاف ملک مےں شدےد رد عمل ہوا۔ لوگ رےمنڈ کو سزائے موت دلوانے کا مطالبہ کرتے تھے۔ رےمنڈ قتل کے مقدمہ مےں گرفتار ہو کر جےل بھےج دےا گےا ۔ اس کے خلاف دفعہ 302 ت پ کا پرچہ ہوا اور معاملہ عدالت تک جا پہنچا۔ صدر اوبامہ ، سےکرٹری کلنٹن سمےت امرےکی عہدے داروں کا اصرار تھا کہ رےمنڈ ڈےوس کو سفارتی استثناءحاصل ہے لہٰذا اسے فوری طور پر امرےکہ کے حوالے کردےا جائے۔ حکومت پاکستان کا جواب تھا کہ معاملہ چونکہ عدالت مےں جا چکا ہے رےمنڈ ڈےوس کے مستقبل کا فےصلہ عدالت ہی کرے گی اور فےصلہ پاکستانی قانون کے مطابق ہو گا۔امرےکہ اور پاکستان کے درمےان رےمنڈ ڈےوس ایشو پر بہت بدمزگی ہوئی۔ امرےکہ کی طرف سے دھمکےاں دی گئےں کہ اگر رےمنڈ کو رہا نہ کےا گےا تو پاکستان کو کےا کےا نقصانات اٹھانا پڑ سکتے ہےں۔ بالآخر فےصلہ دےت کی ادائےگی کے بعد پاکستان کی عدالت نے پاکستانی قانون کے مطابق رےمنڈ ڈےوس کو رہا کر دےا ۔ رےمنڈ کی رہائی بہت غےر مقبول فےصلہ تھا جس کے خلاف ملک گےر احتجاج ہوا۔ رےمنڈ کی رہائی کے فوراً بعد شمالی وزےرستان پر اےک ڈرون حملہ مےں 50سے زےادہ پر امن بے گناہ شہری جاں بحق ہوئے۔ اس کا شدےد رد عمل ملک بھر مےں ہوا جس کی مذمت سول حکومت اور عسکری ذرائع سب ہی نے کی۔ وزےراعظم گےلانی، جنرل کےانی اور ملک کے دےگر سےاسی رہنماﺅں نے واقعہ کی مذمت کی۔ امرےکی سفےر کو سفارت خانہ طلب کر کے سخت احتجاج کےا گےا اور امرےکی حکومت سے معافی مانگنے کا مطالبہ کےا گےا۔ عسکری قےادت نے مطالبہ کےا کہ ملک مےں موجود تمام سی۔آئی۔اے اےجنٹس کی تفصےل فراہم کی جائے۔ بتاےا جائے کہ ان مےں سے ہر اےک کس مشن پر ہے۔ ان تمام لوگوں کو فی الفور پاکستان سے نکالا جائے اور مزےد بھےجنے کا سلسلہ بند کےا جائے۔ اس کے ساتھ ہی ناراضی کے بھر پور اظہار کےلئے پاکستان نے سہہ فرےقی کانفرنس (پاکستان۔ افغانستان، امرےکہ) سے بھی علےحدہ رہنے کا فےصلہ کر لےا۔ گوےا پاک امرےکہ تعلقات تنزلی کی نئی حدوں کو چھونے لگے۔ ملک بھر مےں شدےد رد عمل اور ہلاکتوں پر بے حد احتجاج کی وجہ سے ڈرون حملے کم از کم عارضی طور پر بند کر دےئے گئے۔ پاک فوج کی قےادت شمالی وزےرستان مےں محض امرےکہ کو خوش کرنے کےلئے کسی بڑے اےکشن کےلئے تےار نہ تھی۔ امرےکی حکومت اور عسکری ذرائع اس بات سے ناخوش تھے۔ وہ مصر تھے کہ پاکستان (اپنے جغرافےہ، تارےخ اور مستقبل کی ضرورےات سے قطع نظر محض امرےکہ اور افغانستان مےں اس کی اتحادی افواج کے کہنے پر خطرات، قربانےوں اور نقصانات کو خاطر مےں نہ لاتے ہوئے ) امرےکہ اور اس کے اتحادےوں کے مخالف عناصر (جو شمالی وزےرستان مےں موجود ہےں، اور جن سے پاکستان کو کوئی خطرہ بھی نہےں ، جو غےر ملکی افواج کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد مستقبل کے افغانستان مےںاہم سےاسی حےثےت مےں نمودار ہوں گے ) کی پسپائی مےں اپنی تمام توانائی صرف کر دے۔ پاکستان اور پاک فوج بے دھڑک اور اندھا دھند اےسا کرنے پر آمادہ نہ ہوئی۔ وہ حالات کے مفصل جائزے اور پاکستان کے مفاد کو پےش نظر رکھ کے کوئی فےصلہ کرنا چاہتے تھے۔ امرےکہ اس بات پر بھی خوش نہےں تھا۔ چنانچہ وائٹ ہاﺅس کی امرےکی کانگرےس کو دی جانے والی ششماہی رپورٹ مےں پاک فوج اور حکومت پر شدےد قسم کی تنقےد کی گئی ۔ رپورٹ مےں پہلی بار کہا گےا کہ فاٹا کے علاقہ مےں اےک لاکھ سےنتالےس ہزار فوج رکھنے کے باوجود پاکستان کے پاس دہشت گردی کو ختم کرنے کا کوئی منصوبہ نہےں۔ اس قسم کی زبان اس سے پہلے کبھی استعمال نہےں کی گئی۔ اس جنگ مےں شرکت کی وجہ سے پاک فوج کو ہزاروں ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 36 ہزار سولےن افراد کی ہلاکتیں فوجی قربانےوں کے علاوہ ہےں۔اقتصادی طور پر ملک تباہی کے کنارے پہنچ چکا ہے۔ 35/36ارب ڈالر کا نقصان ےہ غرےب ملک اس جنگ کی وجہ سے اب تک برداشت کر چکا ہے۔ ہلاکتوں اور نقصانات کا سلسلہ جاری ہے اور خدا جانے کب تک رہے گا....
پھر بھی ہم سے ےہ گلہ ہے کہ وفادار نہےں
ہم وفادار نہےں تو بھی تو دلدار نہےں
بات دراصل ےہ ہے کہ امرےکہ اوراےساف افواج کو افغانستان مےں وہ کامےابےاں نصےب نہےں ہوئےں جن کی خواہش تھی اور ان لوگوں نے کہنا شروع کر دےا ہے کہ افغانستان مےں ان کی ناکامی کی وجہ پاکستان کی شمالی وزےرستان مےں بھر پور اقدام کرنے مےں ہچکچاہٹ ہے۔ ےہی بات وائٹ ہاﺅس کی رپورٹ مےں کہی گئی جسے پاکستان حکومت نے مسترد کر دےا، اور کہا کہ افغانستان مےں امرےکےوں کی ناکامی کے ذمہ دار ہم (پاکستان) نہےں۔ پاکستان کے اندر دہشت گردی کا جائزہ لےنا ہمارا کام ہے۔اس ضمن مےں قومی مفادات پر مبنی واضح پالےسی موجود ہے۔ جنگ مےں پاک سےکےورٹی فورسز اور پاکستانی عوام کی قربانےاں کسی بھی ملک سے زےادہ ہےں۔ پاک فوج نے امرےکی رپورٹ کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ افغانستان مےں امرےکہ اور اس کے اتحادےوں کی ناکامی کے ہم ذمہ دار نہےں۔ اسلام آباد مےں دفتر خارجہ کی ہفتہ وار برےفنگ مےں رپورٹ کو ناقابل قبول قرار دےا گےا اور کہا گےا کہ ضروری نہےں کہ جو امرےکہ کا نکتہ نگاہ ہے وہی ہمارا بھی ہو۔ پاک امرےکہ تعلقات دونوں ملکوں کے مفاد مےں ہے۔ پاکستان اپنی کمزورےوں اور طاقت سے آگاہ ہے ۔ امرےکہ اور اےساف افغانستان مےں جس حکمت عملی پر چل رہے ہےں ہماری اس کے بارے مےں اپنی رائے ہے۔ اس کی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو نہےں ٹھہرانا چاہئے۔(جاری ہے)

ای پیپر دی نیشن