لاہور (سلمان غنی) سابق سیکرٹری خارجہ تنویر احمد خان نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونیوالی ڈویلپمنٹ کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں بنیادی کردار مسلح افواج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کا ہے جنہیں افغانستان میں کسی بھارتی کردار کا خطرہ تھا۔ نئی صورتحال میں یہ طے پاچکا ہے کہ پاکستان اور افغانستان ملکر معاملات طے کرینگے جس کوئی بھارتی کردار نہیں ہوگا البتہ امریکی رضامندی سے طالبان سے معاملات طے کرنے کیلئے ترکی تک مذاکراتی سلسلہ وسیع کیا گیا ہے جہاں طالبان کو دفتر کھولنے کی اجازت مل چکی ہے اور آئندہ مذاکراتی عمل ترقی کے ذریعے ہوگا۔ جہاں تک پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کا سوال ہے تو یہ یاد رکھیں جب تک پاکستان آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے چنگل سے آزاد نہیں ہوگا ہماری خارجہ پالیسی ایک آزاد اور خودمختار ملک کی خارجہ پالیسی نہیں بن سکے گی۔ وہ گزشتہ روز نوائے وقت کیلئے خصوصی بات چیت کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے معاملات کیلئے کوشش ڈیڑھ سال سے چل رہی تھی اور طے یہی تھا کہ کوششیں سیاسی انداز میں ہوں گی البتہ عسکری لوگ بھی اس میں شامل ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے اپنے طور پر یہاں تسلط جمانے کی بھرپور کوشش کی لیکن انکے اپنے پاﺅں نہیں لگ سکے۔ یہی وجہ تھی کہ خود امریکہ کے اندر بھی افغانستان میں امریکی کردار پر زبردست ردعمل تھا اور یہ پوچھا جائیگا کہ افغانستان میں سو سے زائد القاعدہ ارکان پر ایک لاکھ 47 ہزار کی افواج کیوں قابو نہ پاسکیں اور امپریل پاور ہمیشہ پورا تسلط چاہتی ہیں لیکن افغانستان میں وہ ناکام ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب تک امریکہ کی خواہش یہی تھی کہ افغانستان میں کسی فائنل سٹیبلشمنٹ سے پاکستان کو دور رکھا جائے اور بھارت کا کوئی کردار بنایا جائے لیکن یہ اعزاز ہماری ملٹری لیڈرشپ کو ملنا چاہئے کہ انہوں نے نہ صرف پاکستان کا کردار منوایا بلکہ ہندوستان کو پرے رکھنے کی حکمت عملی بھی کامیاب کر دکھائی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان میں بہت ساری چیزیں مشترک ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں پر امریکن اپنا تسلط رکھنے کیلئے کوشاں رہے لیکن دونوں یہاں اندر سے نالاں رہے او اب انکے اندر کا خوف انہیں آپس میں مل جل کر چلنے پر مجبور کررہا ہے۔ انہوں نے سی آئی اے کی دھمکیوں کے عمل کو بوکھلاہٹ قرار دیا اور کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈرون حملوں کا سلسلہ خود ہماری حکومتوں کی تائید سے شروع ہوا اور اب بھی سی آئی اے کی جانب سے دباﺅ کا مقصد اس عمل کو جاری رکھنا ہے۔ یہ سارا دباﺅ کچھ لو اور کچھ دو کے عمل کے باعث ہے اور اب دیکھنا ہوگا کہ کس حد تک امریکہ کو اس پر پابند کیا جاسکتا ہے۔ ہاں البتہ فوج نے یہ بات منوالی ہے کہ عام لوگوں کو ٹارگٹ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی کے کردار کی اہمیت سی آئی اے اور امریکہ جانتا ہے۔ یہ انکی خام خیالی ہے کہ پاکستان کی مرضی کے بغیر وہ یہاں انہیں ڈرون چلانے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو کچھ ہورہا ہے اور جو کچھ ہونے جا رہا ہے یہ سب کچھ خود امریکہ اپنی جگ ہنسائی سے بچنے کیلئے کررہا ہے۔ اب وہ طالبان سے مذاکرات بھی کریگا اور اس میں ترکی کا کردار بھی ہوگا اور ترکی کے کردار کی وجہ صرف آئی ایس آئی کے حوالہ سے امریکہ کے تحفظات ہیں۔
تنویر احمد خان