ملک میں الیکشن کی آمد آمد ہے لیکن ملکی سیاسی صورتحال بتدریج بگاڑ کی جانب مائل نظر آتی ہے ۔ ریاست کی اساس 1973 کے آئین پر قائم ہے چنانچہ ملکی و غیر ملکی طلباءو طالبات اور دانشوروں میں آئین کی تشریح اِسی سیاق و سباق سے کی جاتی ہے ۔ یہ بھی درست ہے کہ متعدد آئینی ترامیم کے باوجود یہ حقیقت بدستور اپنی جگہ قائم و دائم ہے کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے لیکن کیا گذشتہ عشرے میں عملی طور پر آئین کی اسلامی شقوں پر عمل درامد کیا گیا ہے ؟ بظاہر ایسا نظر نہیں آتا کیونکہ یہی ایک ایسا سوال ہے جو اسلامی شعور رکھنے والے دانشوروں، سول سوسائیٹی اور عوام الناس کے ذہنوں کو پراگندہ کئے رکھتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں قومی انتخابات کی آمد پر پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اُمیدواروں کی اہلیت و نااہلیت کے حوالے سے آئین کی اسلامی شقوں کو بے معنی بنائے جانے پر فکر اسلامی رکھنے والے شہری مایوس اور متفکر نظر آتے ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ قومی درد رکھنے والے بیشتر ریٹرننگ آفیسرز نے آئین میں دی گئی وضاحت کےمطابق پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اُمیدواروں کی اہلیت اور نااہلی کو سمجھتے ہوئے اِن شقوں پر عمل درامد کرنے کی کوشش کی تو الیکشن کمیشن جس کا کام مستعدی سے آئینی شقوں پر عمل درامد کرانا ہے، نے بھی ریٹرننگ آفیسرز کو اُمیدواروں سے اسلامی سوجھ بوجھ سے متعلقہ سوالات کرنے سے روک دیا ۔ اِس پر طرّہ یہ کہ مبینہ طور پر جعلی ڈگریوں ، قومی قرضوں و یوٹیلٹی بلوں کے نادہندگان اور نظریہ پاکستان کے منافی سرگرمیوں میں ملوث کچھ اُمیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے پر الیکشن ٹربیونلز اور عدلیہ کے کچھ ججوں نے ایسے ہائی پروفائل اُمیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی دے کر ماضی کے نام نہاد اسٹیٹس کو (Status Quo) کو پھر سے جاری و ساری کرکے اِن آئینی شقوں کو بے معنی بنانے کی کوشش کی ہے۔ اِس دوعملی پر حیرت ہوتی ہے کہ ایک جانب تو چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخارمحمد چوہدری اور چیف الیکشن کمشنر جناب فخروالدین صاحب صبح شام اِن آئینی شقوں پر عمل درامد کی کوششوں میں مصروف ہیں اور دوسری جانب مبینہ طور پر الیکشن کمیشن کے کچھ اراکین ، ہائی کورٹس کے کچھ جج ، بیشتر الیکشن ٹربیونلز اور بالخصوص عبوری صوبائی حکومتیں اسلامی اخلاق و کردار کے حوالے سے آئین میں درج اِن اہم آئینی دفعات پر عمل درامد سے گریزاں نظر آتی ہیں ۔قارئین کرام ، آئین کے آرٹیکل 31(1) (2) (b) میں ریاست کو قرآن و سنت کے حوالے سے ریاست کے مسلمان شہریوں کا اسلامی کردار متعین کرنے کےلئے اسلامی مذہبی اور اخلاقی تعلیمات کو مسلم معاشرے میں پھیلانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جبکہ مسلمان شہریوں کےلئے پارلیمنٹ کا ممبر بننے کےلئے آئین کے آرٹیکل 62(1)(d)(e)(f)(g) کی رُو سے پارلیمنٹ کے انتخابات میں حصہ لینے والے افراد کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اچھے اخلاق و کردار کے مالک ہوںاور اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کے مرتکب نہ ہوئے ہوں چنانچہ اُنہیں اسلامی تعلیمات اور اسلام کی عملی زندگی کے پہلوﺅں سے آگہی ہونی چاہئیے اور وہ کسی گناہ کبیرہ کے مرتکب نہ ہوئے ہوں۔ اِسی طرح اِن آئینی شقوں میں امانت و دیانت کے حوالے سے صادق و امین ہونے کےساتھ ساتھ اِس اَمر کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کےلئے منتخب ہونے کی خواہش رکھنے والے کسی بھی فرد کےلئے یہ ضروری ہے کہ اُس فرد نے قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی سلامتی اور نظریہ پاکستان کے منافی کوئی کام نہ کیا ہو جبکہ آئین کے آرٹیکل 63(c)(n)(o)(p) کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اگر کوئی اُمیدوار سزا یافتہ ہو ، دُہری شہریت کا مالک ہو یا اُس نے یا اُسکے زیر کفالت کسی فرد نے بنکوں سے دوملین تک کے قرضوں کی ادائیگی وقت پر نہ کی ہو یا یوٹیلٹی بل ادا نہ کئے ہوں تواُسے پارلیمنٹ یا کسی بھی صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کے اہل نہیں سمجھا جائیگا ۔ چنانچہ یہ وہ پابندیاں ہیں جنہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں وضاحت بیان کر دیا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ کچھ ریٹرننگ آفیسرز نے جرا¿ت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 62/63 کے تحت درجنوں اُمیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے لیکن الیکشن ٹربیونلز اور کچھ جج حضرات نے ایسے بیشتر افراد بشمول جمشید دستی اور عاقل شاہ کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی ہے ۔ کچھ دانشوروں کا یہ کہنا کہ آئین کی درج بالا دفعات پر عمل درامد کےلئے مناسب قانون سازی نہیں کی گئی ہے جس کے باعث ایسے افراد قانون کے شکنجے سے صاف بچ نکلتے ہیں لیکن ایسا نہیں پاکستان پینل کوڈ اور سی آر پی سی میں ایسے تمام افراد کو سزا دینے کی دفعات موجود ہیں ۔ جعلی ڈگری کا حصول قابل سزا جرم ہے جس کےلئے پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 468/470/471 کا بخوبی مطالعہ یا جا سکتا ہے ۔قارئین کرام ،درج بالا تناظر میں کچھ دانشور آئین کی اِن شقوں کا مطالعہ کئے بغیر بنیادی حقوق کے حوالے سے بے معنی راگ ہی الاپتے رہتے ہیں ، اُن کی نظر میں آئین کی صرف ایک ہی شق قابل عمل ہے جس میں آئین کے آرٹیکل 248(1)(2)(3)(4) کے تحت صدر ، وزیر اعظم اور گورنروں کو ماضی میں کئے گئے گناہوں اور دورانِ حکومت کی گئی بے ضابطگیوںکا cognisance لینے یا مقدمات قائم کرنے سے استثنیٰ حاصل ہے۔ اگر مناسب قانون نہ ہونے کے سبب آئین کے آرٹیکل 248 اور ذیلی شقوں سے حکمران فائدہ اُٹھا سکتے ہیں تو جعل سازی اور آئین شکنی کے مرتکب ہونے افراد جن میں کروڑوں روپے کے قرضوں کے نادہندہ اور سیاسی اثر و رسوخ پر بنکوں سے قرضے معاف کرانے والوں کیخلاف مناسب قانون کی موجودگی میں ایکشن کیوں نہیں لیا جا سکتا ، ایں چہ بوالعجبی است ؟ چنانچہ حکمرانوں کے استثنیٰ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے وزراءاور اداروں پر مسلط کئے جانیوالے بااعتماد سربراہوں کے ذریعے ملکی خزانے میں لوٹ مار میں کوئی کمی نہیں کی گئی جن سے سپریم کورٹ عہدہ براہ ہونے کی کوششوں میں اب بھی مصروف عمل ہے ۔ حقیقت یہی ہے کہ پیپلز پارٹی کی زرداری مفاہمتی اتحادی حکومت نے پانچ برس تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہونے کے باوجود قوم و ملک کےلئے کوئی اچھی روایات نہیں چھوڑی ہیں ۔ مقتدر ذرائع کےمطابق اِس عرصہ کے دوران ملکی اہم شخصیتوں نے مالی بے ضابطگیوں کے ریکارڈ توڑے ،اداروں کو اپنی شاہ خرچیوں سے تباہ وبرباد کیا، ملک کو غیر معمولی قرضوں کے جال میں جکڑ دیا، قومی دولت منی لانڈرنگ کے ذریعے ملکی دولت باہر بھیجی گئی اور روزمرہ ریاستی امور اسٹیٹ بنک میں نوٹ چھاپ کر پورے کئے جاتے رہے ۔ اندریں حالات عوام الناس اور سول سوسائیٹی یہ جاننا چاہتی ہے کہ عوام اور خواص میں یہ فرق کیوں ملحوظ خاطر رکھا جا رہا ہے ؟ عوام کیوں ہر چھوٹے بڑے جرم میں سزا وار ہیں اور خواص کیوں ہر الزام سے مبرّا ہیں ۔ جب تک یہ فرق status quo کی شکل میں زندہ رکھا جائیگا تو ملک میں عوام کی حکومت عوام کےلئے کے تصور کو کس طرح جِلا مل سکتی ہے ۔سندھ میں متحدہ کے گورنر براجمان ہیں اور اُن کی غیر موجودگی میں پیپلز پارٹی کے اسپیکر گورنر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔ سندھ کی عبوری حکومت انتخابات پر توجہ دینے اور صوبے میں لاءاینڈ آرڈر قائم رکھنے کے بجائے وزراءکی فوج ظفر موج بھرتی کرنے میں لگی ہوئی ہے جبکہ متحدہ اور پیپلز پارٹی کے اُمیدوار کثیر تعداد میں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ اِسی طرح پنجاب کے گورنر کے دو صاحبزادے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ عوام یہی سوچتے ہیں کہ کیا آئین کی بساط سے اسلامی شقیں لپیٹی جا رہی ہیں اور کیا ایسی صورتحال میں ملک میں ایماندارنہ اور شفاف انتخابات ممکن ہیں ؟ اِس پر چیف جسٹس پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر کو خصوصی توجہ دینی چاہئیے۔