ہم پورے یقین کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے جن مقاصد کی تکمیل کیلئے یہ مملکت خداداد حاصل کی تھی ہمارے موجودہ سیاستدانوں میں کوئی ایک بھی ان مقاصد سے آگہی نہیں رکھتا جو یہ بھی نہیں جانتے کہ پاکستان بنانے والا کون ہے؟ قائداعظم کی تاریخ پیدائش اور وفات کیا ہے؟ وہ ”مقاصد“ کا علم کیا خاک رکھتے ہوں گے۔ بنیادی وجہ تعلیم کا نہ ہونا۔ ہمارے ہاں ستم ظریفی یہ ہے کہ کسی سرکاری ادارے میں اگر Peon (چپڑاسی) درکار ہو تو اس کیلئے کم از کم تعلیم میٹرک ہونا ضروری ہے۔ دوسری طرف جن لوگوں نے پارلیمنٹ میں جانا ہے، قانون سازی کرنی ہے۔ ملک کی تقدیر کے فیصلے کرنے ہوتے ہیں، اندرونی و خارجی معاملات طے کرنا ہوتے ہیں۔ جنہوں نے پورے ملک کی باگ دوڑ سنبھالنی ہوتی ہے ان کیلئے میٹرک تعلیم بھی ضروری نہیں ہے۔ قائداعظم کے پاکستان کو بنانے اور سنوارنے کی بات کوئی بھی نہیں کرتا۔ کوئی روٹی کپڑا اور مکان کے نعروں کیساتھ عوام کو ہی بے دریغ لوٹتا اور دھوکا دیتا ہے اور کوئی ”نیا پاکستان“ بنانے کا دعویدار ہے۔پانچ سال تک جعلی ڈگریوں کے حاملین دونوں ہاتھوں سے جب ملک کو لوٹ رہے تھے انہیں کچھ نہ کہا گیا اور اب جب وہ اپنی جائیدادوں میں کئی گنا اضافہ کر چکے ہیں اور نئے الیکشن کی آڑ میں ایک طرف انہیں ڈرامائی طور پر تین تین سال قید اور صرف پانچ ہزار جرمانہ کی سزائیں دی گئیں تو دوسری طرف انہیں ”بری“ بھی کیا جا رہا ہے۔ ہونا تو چاہئے تھا کہ سزا نہیں تو جرمانہ کی آڑ میں ہی ان تمام جعلی ڈگری ہولڈر سے وہ تمام تنخواہیں‘ مراعات یہاں تک کہ وہ پیسے بھی وصول کئے جاتے جو پانچ سالوں میں انکی ذاتی سکیورٹی پر خرچ ہوئے۔
جمشید دستی سزا سن کر جب خوب روئے، ساتھ ہی ہائیکورٹ میں انہوں نے فیصلے کیخلاف رٹ کر دی تو انہیں ”باعزت“ بردی کر دیا گیا۔ ایک ٹی وی چینل پر سپریم کورٹ کے وکیل صاحب سے دستی کی ڈگری کے بارے سوال کیا گیا تو موصوف نے معصومانہ انداز میں دستی صاحب کی تعریف بھی کی اور فرمایا کہ وہ ”بری“ اس لئے ہو گئے ہیں کہ دستی صاحب کی ڈگری جعلی نہیں بلکہ Invalid تھی۔ سبحان اللہ۔ اب ہم بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ جعلی اور Invalid میں فرق کیا ہوتا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمشن کا ادارہ جسے HEC کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم یعنی ہائر ایجوکیشن کے جو بھی ادارے HEC کے منطور شدہ ہیں صرف ان اداروں کی ڈگری کو اصلی تسلیم کیا جاتا ہے اندرون ملک بھی اور بیرون ملک بھی۔ اور صرف HEC سے منظور شدہ اداروں کی ڈگریوں کو Valid تسلیم کیا جاتا ہے باقی سب In-valid۔
جعلی ڈگری اور In-valid ایک ہی چیز کے دونام ہیں۔ مشرف قانون کی نظر میں جو بھی مقام رکھتے ہیں۔ ہمیں اس سے غرض نہیں، اُس وقت الیکشن کے لئے بے شک بی اے کی ڈگری کا فیصلہ کسی بدنیتی پر ہی مبنی ہوگا مگر ہماری نظر میں یہ بہت ہی اچھا فیصلہ تھا۔ پارلیمنٹ میں جانے کے لئے تعلیم یافتہ ہونا تو بے حد ضروری ہے۔ ان پڑھ افراد وہاں جاکر قانون سازی کیا خاک کریں گے مگر وہ ”دولت سازی“ ضرور کریں گے۔ فرض کیجئے کہ آپ کہ پارلیمنٹ میں ان پڑھ افراد ہیں اور اب انہیں تعلیمی پالیسیاں بنانی ہیں تو وہ یہ کام کیسے سرانجام دینگے؟ خود تو وہ اس اہل ہوں گے مگر تعلیم کے بارے ”احکامات“ اپنے ”آقاﺅں“ سے لیں گے۔ جس کی بنا پر تعلیمی نصاب سے نظریہ پاکستان‘ بانیان پاکستان اور اسلامی اقدار کے بارے سارا مواد خارج کر دیا جائے۔ یقین جانئے 66 سال سے ہمارے ساتھ یہی گھناﺅنا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ تعلیم یافتہ افراد اسی صورت میں پارلیمنٹ میں آسکیں گے جب ان کیلئے تعلیم لازمی قرار دی جائیگی۔ ان پڑھ افراد کو پارلیمنٹ میں جانے کی اجازت دینا یا انہیں بھیجنا ہماری ناقص رائے میں گناہ کبیرہ ہے۔
ان پڑھ پارلیمنٹ اٹھارہ کروڑ عوام کیلئے کونسے کارنامے سرانجام دے گی؟ قوم کی کیا فلاح و بہبود کرے گی؟ کیا ایسے بانیان پاکستان علامہ اقبال اور قائداعظم کے خواب پورے ہو پائیں گے؟ لہذا پارلیمنٹ میں جانے کے لئے تعلیم کو لازمی شرف قرار دیا جائے۔ ہماری نظر میں تو صوبائی کیلئے B.A اور قومی اسمبلی کے لئے M.A تک تعلیم ہونی چاہئے۔ اس طرح جاگیردارانہ‘ وڈیرانہ اجاراہ داری کا بھی خاتمہ ہو گا اور تعلیم میں بھی بہتری آئیگی۔ مسلمان کیلئے تو ویسے بھی تعلیم فرض ہے اور فرض سے روگردانی گناہ ہے تو پارلیمنٹ میں داخلے کیلئے تعلیم شرط کا نہ ہونا حیران کن ہے۔ جب تک پارلیمنٹ میں تعلیم یافتہ لوگ نہیں جائینگے تو عوام کی تقدیر کبھی نہیں بدل پائے گی ۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد عدلیہ کے فیصلوں پر عمل کرنے کی بجائے ”احترام“ کے ساتھ ان کو للکارتے ہی رہیں گے۔
معذرت کے ساتھ عدلیہ سے مﺅدبانہ گذارش ہے کہ ”قید“ کی سزا بے شک معاف کر دی جائے مگر ان جعلی ڈگری ہولڈر سے پانچ سال کی تنخواہیں کم از کم ضرور واپس لی جائیں اور یہ عین عدل ہو گا۔