پاکستان کے الیکشن بھی ایسے ہیں جیسے چوری چوری کی شادی، جیسے چوری کا سامان ٹھکانے لگانے کا چوری چوری انتظام ہو رہا ہو، جیسے بچوں کو بہلانے کیلئے ہاتھ میں کوئی چھنکنا پکڑا دے، بچہ چھنکنا بجاتا جائے، چور چوری کرتا جائے۔ میںنے چوری کا لفظ بہت دفعہ استعمال کر لیا معلوم نہیں یہ چوری ہے کہ ڈاکہ ،جو بھی ہے اب بس کر کاکا۔۔۔
پاکستان کاکے کھلانے کے لئے معرضِ وجود میں آیا۔ اب تک اس کی پچ پر اتنے کاکے کھیل چکے ہیں کہ پچ پچ مچ گئی ہے۔کاکے صرف سیاسی نہیں ہیں بلکہ فوجی، نوکر شاہی اور جج بادشاہ بھی ہیں۔ فوج کو الزام دینے سے پہلے عدلیہ کے گریبان میں جھانکیں تو جب1953ءکوگورنر جنرل نے سندھ اسمبلی تحلیل کر دی جسے سندھ ہائی کورٹ نے غلط قرار دیا مگر فیڈرل کورٹ نے اس فیصلے کو الٹ دیا اور دستور ساز اسمبلی میں گورنر جنرل کے کردار کو لازمی قرار دے دیا۔ یہ تھی جمہوریت پر پہلی ضرب۔ اور 1958ءمیں جنرل ایوب کے پہلے مارشل لا کی۔۔ نظریہ ضرورت ۔۔ سے ستر پوشی سپریم کورٹ نے ہی کی تھی۔ جمہوریت کی پہلی چوری۔۔ پھر بعد میں تو ڈاکے پڑنے لگے۔
سپریم کورٹ، فوجی بادشاہ ، سیاست دان، نوکر شاہی اور مولوی۔۔ ان میںسے کس کاکے کا کردار زیادہ زہریلا رہا ہے اس کا فیصلہ کرنا کافی مشکل ہے بلکہ یہ سب کسی بھی ناجائز کام کو جائز بنانے کیلئے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال لیتے ہیں۔
دنیا کی سپر پاور کا صدر جب منتحب ہوتا ہے تو وہ اپنے اثاثے ٹرسٹ کے حوالے کر دیتا ہے، جب تک کرسی صدارات پر رہتا ہے اس کے فرشتوں کو علم ہوتا ہو تو ہو اسے کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ اس کا پیسہ کس بزنس میں لگایا گیا ہے تاکہ conflict of interestکا مسئلہ ہی پیدا نہ ہو۔ ان سیکولر ممالک کی پریکٹس دیکھ کر مجھے حضرت ابو بکر ؓکے زمانہ¿ خلافت کی ایک پڑھی ہوئی مثال یاد آتی ہے، خلافت ملنے کے اگلے روز جب آپؓ اپنی کپڑے کی دکان کھولنے جارہے تو ایک شخص نے کہا اگر آپ کپڑے کا بزنس کریں گے تو باقی لوگوں سے کپڑا کون خریدے گا۔ conflict of interestآڑے آیا، آپ ؓ نے دکان بند کر دی۔کیا مسلمان خلیفہ کی یہ روایت سیکولر مما لک نے نہیں اپنا لی؟ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کیا ہورہا ہے؟ لاہور کیمپس کی خوبصورت نہر جس کے پانی میں ہمارے پاﺅں کا رنگ بھی شامل ہوگا اور جس کے کنارے کی مٹی پر ہمارے پاﺅں کے نشانات بھی ضرور نظر آتے مگر اس کے گرد لوہے کے جنگلے نے ان تمام خوبصورت مناظر اور یادوں کو آنکھوں سے نوچ کر اس لوہے کی بھٹی میں پگھلا دیا، جو لوہا لاہور کے جدید مغل شہزادوں کے کارخانوں میں بنتا ہے۔ چینی اور مرغی کی قیمت اس وقت آسمان کو چھونے لگی جب چھوٹے شہزادوں کو انکے کاروبار کا شوق چرایا۔ شریف خاندان کے دوسرے دور ِ حکومت میں 120دفعہ امپورٹ ڈیوٹی revise ہوئی، یعنی جب بادشاہوں کا ساما ن آنا ہوتا تو کم ہوجاتی۔ ہائے کینیڈا امریکہ کی سیکولرازم جس میں ہم باآسانی مسلمان خلفاءراشدین کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ ہائے اسلامی جمہوریہ پاکستان جس میں ہم اپنا چہرہ بھی ٹھیک سے نہیں دیکھ پاتے۔جس کوحکومت کا وقت پورا کرنے کی مہلت نہیں ملی سمجھو کہ اسے لوٹ مار کا پورا موقع نہیں ملا۔ آپ اپنے بزنس کے لئے تو بہترین بزنس مین ثابت ہوں، خالی خزانے کو بھر دیں اور جب ملک کا انتظام آپ کے ہاتھوں میں آئے تو آپ بھرا خزانہ خالی کر کے بغلیں بجاتے ادھر اُدھر کو ہو جائیں۔ محکموں کو ٹھیک کرنے کی کس نے کوشش کی ؟
آپ کو حکومت کرنے کے پورے پانچ سال بھی ملے مگر آپ نے اس وزیر سے استعفی لینا تو دور کی بات ہے بلا کر کان تک نہیں کھینچے جس نے ریلوے کو لوہے کے بھاﺅ بیچنے کے قابل بھی نہ چھوڑا۔ یاور شاہ آٹوا سے Mark Carney گورنر بنک آف کینڈا کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب ساری دنیا میں recessionتھا ، اس وقت اس بندے نے کینڈا کو ایسے معاشی منصوبے دئیے کہ کینیڈا معیشت کے اس بحران میں سے نکلنے والے پہلے ممالک میں شامل ہوگیا ،کینڈا سے پانچ سال کی ٹرم ختم ہوتے ہی انگلینڈ نے اسے گورنر آف بنک آف انگلینڈ کے عہدے پر فائز کر دیا تاکہ اس کی قابلیت سے وہ اپنے ملک میں بھی ایسی اصلاحات کا نفاذ کریں جس سے ملک ترقی کرے۔ پھر وہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ پاکستان اسی طرح پی آئی اے، سٹیل ملز اور ریلوے کا محکمہ میرٹ پردیانتدار پرو فیشنلز کے سپرد کر دے،کیونکہ یاور صاحب کے خیال میں 18کروڑ پاکستانی بھی بہتر زندگی گذارانے کا حق رکھتے ہیں۔کیسی معصوم خواہش ہے، ہم کینڈا کی ہموار بہتی زندگی میں یہ بھول جاتے ہیں جیسا کہ مبشر حسن صاحب نے کہا کہ پاکستان میں غریب جبر کی حالت میں ہے ۔وہ مجبور ہے کہ غریب ہی رہے۔ سینکڑوں برس سے مزدور کے بیٹے کی قسمت میں مزدور رہنا ہی لکھا ہے۔
کوئی بھی مخلص بیرونِ ملک پاکستانی آج بھی پاکستان اور وہاں بسنے والے پاکستانیوں کی بہتری کے لئے سوچ سوچ کر ہلکان ہوتارہتاہے، مایوس بھی ہوتا ہے، تھک بھی جاتا ہے پھر بھی سوچتا رہتا ہے کوئی ایک خواب تو پورا ہوجائے، میں جو یہاں جنت جیسے ملک میں بیٹھا ہوں اس کی کسی ہوا کی ہلکی سی سرگوشی ہی میں پاکستان کے کان تک پہنچا آﺅں۔۔ بقول منیر نیازی۔۔
کناں ٹرئیے ہور
کناں تھکئے ہو
یار جے گل نوں سمجھ نہ سکے
گل کوئی کرئیے ہور
اک وی خواب جے پورا ہووے
خواب نہ تکئے ہور
الیکشن جوکہ یوں چپکے چپکے ہورہے ہیں جیسے کوئی چوری ہو رہی ہو ،اگر ہوجاتے ہیں تو لوگوں کو اپنا کردار نبھانا ہوگا ۔آزادی کے نام پر ابھی تک جو غلامی کا طوق پہنے بیٹھے ہیں اسے توڑ کر پھینکنا ہوگا۔ اس قسمت کو جو کسان کا بیٹا کسان اور سیاست دان کا بیٹا سیاست دان پیدا کر رہی ہے بدلنا ہوگا۔ موروثیت کے اس کھیل سے نکل کر ہاتھ پیر مارنے ہونگے۔ نہ اپنی بدحالی کو قسمت کا لکھا سمجھ کر گلے لگائیں اور نہ چوہدریوں، شریفوں، گیلانیوں یا بھٹو، زرداریوں کو خدا کی طرف سے آپ پر حکومت کرنے کے لئے بھیجی گئی مخلوق سمجھیں۔ جن چار چوکیداروں کے ہوتے چوری ہوئی وہ یا تو انہوں نے خود کی یا کروائی دونوں صورتوں میں گھر کے مکینوں کو ان چوکیداروں کو نکال باہر پھینکنے کی ہمت اور سمجھ آ جانی چاہئے۔