وزیر ِداخلہ ملک‘ حبیب خان کو بھی‘ گذشتہ ماہ‘ سابق ہو جانے والے وزیرِ داخلہ‘ رحمٰن ملک کی طرح‘ خبروں میں رہنے کا شوق ہے۔ حبیب صاحب، اپنے پیش رو کی طرح خوش پوش ہیں، چہرے پر مسکراہٹ بھی سجائے رکھتے ہیں اور میڈیا کے لوگوں کی طرف داد طلب نگاہوں سے بھی دیکھتے ہیں۔ بعض اوقات تو‘ موصوف کی گفتگو۔ ”کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!“۔ کا نمونہ ہوتی ہے، لیکن۔ ”نمونہ“۔ داغ دہلوی کے مفہوم کی طرح جب انہوں نے کہا تھا۔۔۔”جِس نے‘ ہمارے دِل کا‘ نمونہ دِکھا دِیا اِس آئینہ کو‘ خاک میں‘ اُس نے مِلا دِیا“16اپریل کو صبح سے شام تک‘ ملک حبیب خان کا یہ بیان‘ مختلف نیوز چینلوں پر چلتا رہا‘ جِس کے مطابق‘ موصوف نے اعلان کِیا تھا کہ۔ ”حکومت سیاسی رہنماﺅں کو اُن کے Gradeکے مطابق سکیورٹی فراہم کرے گی“۔ اور اُسی روز خضدار اور پشاور میں مُسلم لیگ ن اور عوامی نیشنل پارٹی کے قافلے اور جلسہءعام پر حملہ ہو گیا۔ جِس میں 20 لوگ جاں بحق اور بہت سے زخمی ہو گئے۔ ”Grade“۔ کے معنی ہیں ۔ درجہ ، رُتبہ اور مرتبہ۔ لیکن وزیرِ داخلہ نے، یہ نہیں بتایا کہ کسی سیاسی رہنما کے بارے میں، فیصلہ کون کرے گا کہ اُس کا۔ ”گریڈ“۔ کیا ہے؟۔ عام طور پر تعلیمی اداروں میں، طلبہ اور طالبات کے گریڈ ہوتے یا پھر سرکاری ملازموں کے، جن کی اہلیت یا تجربے کی وجہ سے انہیں Upgradeکر دیا جاتا ہے۔ یعنی ایک گریڈ سے، دوسرے گریڈ میں ترقی دے دی جاتی ہے۔ بعض اوقات کسی طالبعلم‘ طالبہ اور سرکاری افسروں کو Down Grade بھی کر دیا جاتا ہے یعنی بڑے درجے سے چھوٹے درجے میں بھجوا دیا جاتا ہے۔ملک حبیب خان‘ 21گریڈ میں تھے‘ جب وہ انسپکٹر جنرل پولیس کے منصب سے ریٹائر ہُوئے ، اب وہ وفاقی وزیر کی حیثیت سے‘ کم از کم‘ اپنے ماتحت قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کام کرنے والے، 22ویں گریڈ کے حاضر سروس افسروں کے Boss ہیں ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ، ملک صاحب میں وہ کیا خوبی تھی کہ انہیں ۔گریڈوں کے شہر“۔ (اسلام آباد) میں، سیاسی رہنما ﺅں کے گریڈ مقرر کرنے کا اختیار دے دِیا گیا ہے؟۔ ایک ضرب اُلمثل ہے۔ ”جِسے پِیا چاہے وہی سُہاگن“۔ یہ ضرب اُلمثل اوَدھ کے نواب، واجد علی شاہ کے حوالے سے مشہور ہُوئی تھی کہ جِن کے حرم میں سینکڑوں خواتین تھےں اور ہر شام ، ہر خاتون بن سنور کر تیار بیٹھی ہوتی تھی ،یہ سوچ کر کہ شایدنواب صاحب آج، اُسے بلوا لیں۔ تاریخ میں سینکڑوں مثالیں ہیں جب کوئی عام عورت‘ بادشاہ سے شادی کرکے ملکہ بن گئی۔ ایران کی فرح دیبا بھی اُن میں سے ایک تھی‘ جو ایران کے شہنشاہ‘ آریہ مہر‘ محمد رضا شاہ پہلوی سے شادی کے بعد ملکہ فرح دیبا کہلائی۔ حُسنِ انتخاب یا حُسنِ نظر بادشاہ کا ہوتا ہے یا فوجی آمر‘ صدر یا وزیراعظم کا کہ وہ جِس ذرّے کو چاہے آفتاب بنا دے۔ میرا دورِ جوانی کا ایک شعر ہے۔۔۔”ہمارے حُسنِ نظر کی‘ کرشمہ سازی ہےکہ جِس کو‘ پِیار سے دیکھا‘ وہ بے مثال ہُوا“قدیم ہندوستان میں، مہاراجا بِکر ماجیت (جِس کے نام سے بکرمی سال رائج ہُوا) کے دربار میں۔ ”نو رتن“ تھے۔ مُغل بادشاہ اکبر نے بھی اپنے دربار میں۔ ” نو رتن“ جمع کر لئے۔ ان نورتنوں (نابغہءرُوزگار لوگوں) کے بھی الگ الگ گریڈ تھے۔ فاتح سومنات سُلطان محمود غزنوی کے 8 غلام پسندیدہ تھے‘ جِن میں ایاز ملک بھی شامل تھا۔ ظاہر ہے کہ ایاز ملک کا گریڈ دوسرے غلاموں سے اونچا تھا۔ ملک حبیب خان کا‘ وفاقی نگران کابینہ میں کون سا گریڈ ہے؟۔ فی الحال اُنہوں نے نہیں بتایا۔ ”تاریخ فرشتہ“۔ کے مطابق۔ باشریعت علاﺅاُلدین خلجی (1296ءتا 1316ئ) ہندوستان کا پہلا بادشاہ تھا کہ جِس نے، اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں مقرر کیں اور اُس کے ساتھ ہی آواز اور خوبصورتی کی بنیاد پر طوائفوں کا گریڈ مقرر کرکے، گاہکوں کے لئے اُن کی فیس مقرر کر دی تھی۔ پاکستان میں سیاستدانوں کے گریڈ مقرر کرنے یا انہیں اپ گریڈ کرنے کا آغاز۔ 7 اکتوبر 1958ءسے ہُوا‘ جب ہمارے پہلے منتخب صدر۔ سکندر مرزا نے مارشل لاءنافذ کِیا ، پھِر جنرل ایوب خان ، جنرل یحییٰ خان ، جنرل ضیاءاُلحق اور پھِر جنرل پرویز مشرّف کی نظر ہائے حُسن سے ، نئے سیاستدان دریافت ہُوئے ، اُن میں سے اکثر کو اُونچے گریڈوں میں بھرتی کیا گیا ، کُچھ پرانے سیاستدانوں کی بھی اپ گریڈنگ ہُوئی۔ سیاستدانوں کی اونچے گریڈوں میں بھرتی اور اپ گریڈنگ میں، مقتدر قوتیں اور خفیہ ایجنسیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ اِسی لئے اُن کی رپورٹوں پر بننے والے ۔ صدور ، گورنر ، وزیرِاعظم، وُزرائے اعلیٰ اور وفاقی اور صوبائی وُزراءاپنے محسنوں کو تا عُمر نہیں بھولتے ۔کون سیاستدان کِس گریڈ میں ہے؟۔ یا اُسے کِس گریڈ میں ہونا چاہئے ؟ اِس کا فیصلہ تو عوام کو ہی کرنا چاہئے، جب عام انتخابات ہوں‘ بشرطیکہ وہ انتخابات صاف اور شفاف بھی ہُوں۔ 2008 ءکے عام انتخابات کے بعد‘ وفاق اورصوبوں میں حکومتیں بن گئیں تو 4 سال بعد یہ حقیقت سامنے آئی کہ‘ ان انتخابات میں پونے چار کروڑ جعلی ووٹروں نے ووٹ ڈالے تھے۔ اِس لحاظ سے یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ فلاں وزیرِاعظم یا وزیرِاعلیٰ‘ سیاست کے اونچے گریڈ میں ہے!۔ یوں بھی وقت کے ساتھ ساتھ فلمی اداکاروں‘ پہلوانوں اور کھلاڑیوں کی طرح‘ سیاستدانوں کے گریڈ بدلتے رہتے ہیں۔ صدر سکندر مرزا تو خیر جلا وطنی میں گمنامی کی موت مر گئے تھے، لیکن صدر ایوب خان‘ صدر یحییٰ خان‘ صدر ضیاءاُلحق‘ صدر غلام اسحٰق خان‘ صدر فاروق لُغاری اور کئی وزرائے اعظم کی قبروں پر‘ اُن کے خاندان کے لوگ بھی حاضری نہیں دیتے‘ البتہ علامہ اقبال ؒ، قائدِ اعظم ؒ، قائد مِلتؒ اور مادرِ ملتؒ کے مزاروں پر لوگ عقیدت و احترام سے حاضری دیتے ہیں۔ ذُوالفقار علی بھٹو ، محترمہ بے نظیر بھٹو کی قبروں پر بھی اِسی لئے حاضری دی جاتی ہے کہ وہ اُن کے سیاسی وارثوں کا ووٹ بنک ہے۔ صدر جنرل (ر) پرویز مشرّف کا اب سیاسی طور پر‘ کوئی گریڈ نہیں رہا اور ریاست بچانے کے لئے کینیڈا سے تشریف لانے والے علامہ طاہر اُلقادری اب گریڈ چہارم کے سیاست دان ہیں۔ مَیں حیران ہوں کہ جب علامہ صاحب کے پاس، اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی جان بچانے کے لئے اپنا بم پروف کنٹینر ہے تو‘ قومی خزانے سے اُن کی سکیورٹی پر خطیر رقم کیوں خرچ کی جارہی ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف تو خیر اب۔ ”سرکاری مہمان“۔ بن گئے ہیں۔ علامہ القادری سے اپنے پسندیدہ مُلک کینیڈا تشریف لے جانے کی درخواست کیوں نہیں کی جاتی؟۔ گذشتہ 5 سال میں صدر‘ گورنروں‘ وُزرائے اعظم‘ وُزرائے اعلیٰ‘ وفاقی اور صوبائی وُزراءکے علاوہ حزبِ اختلاف کے قائدین کی جان کی حفاظت کے لئے کروڑوں اور اربوں روپے خرچ کئے گئے، لیکن عام لوگوں کو تو دو وقت کا کھانا بھی نہیں مِلتا۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جانے والی سکیورٹی پر ہی زندہ ہیں۔ عام لوگ۔ جِن کا کوئی گریڈ نہیں۔ سابق حکومتیں‘ اُن کی سکیورٹی کا کوئی بندوبست نہیں کر سکےں تو‘ نگران حکومت اور چند دِنوں کے نگران وزیرِ داخلہ کیا تِیر مار لیں گے؟۔