جنرل پرویز مشرف کو 1997ء میں پاکستان آرمی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا ۔ اُنہوں نے کارگل آپریشن میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس سے پاکستانی فوج اور مملکت کو شرمساری سے دو چار ہونا پڑا ۔ صحیح رد عمل تویہی تھا کہ کئی سروں کو رول کیا جاتا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جو فوجی کمانڈر اس ناکامی کے ذمہ دار تھے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی گئی بلکہ اُن کی ناقص کارکردگی کو چھپانے کی خاطر اُنہیں انعامات سے نواز ا گیا ۔ کچھ عرصہ بعد یہی ملزم شیر بن گئے اوراُنہوں نے مل جل کر جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ جب قصور وار لوگوں کا بروقت احتساب نہ کیا جائے تو حکمرانوں کے ساتھ ہمدردی ختم ہو جاتی ہے۔ میاں نواز شریف کے ساتھ یہی ہوا حالانکہ قومی اسمبلی میں اُنکی دوتہائی اکثریت موجود تھی۔ جنرل پرویز مشرف نے مختلف حیلے ، حجت ، غیر قانونی کاروائیوںسے 2001ء میں پاکستان کے صدر مملکت بن گئے‘ انکے دور حکومت میں مندرجہ ذیل چیدہ چیدہ الزامات لگائے جا سکتے ہیں:۔
الف۔ 1999ء میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹا۔
ب ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا ساتھ دیکر ایک پڑوسی مسلمان اور دوست ملک افغانستان پر قبضہ دلایا۔
ج۔ جامع حفصہ پر افواج پاکستان سے حد سے زیادہ طاقت کا استعمال کر کے وہاں genocide کا ار تکاب کیا۔
د۔ افغانستان میں امریکہ کی وحشیانہ بمبار ی کے نتیجہ میں بھاگے ہوئے پناہ گزین مسلمانوں پر حملے کر کے اور پکڑ پکڑ کر جارح ممالک کے حوالے کیا۔
ر۔ نواب محمد اکبر بگٹی کوآپریشن میںقتل کیا گیا ۔
س۔ بارہ مئی 2007ء کو مملکت پاکستان کے چیف جسٹس کو کراچی ہوائی اڈے پر یرغمال بنائے رکھا جس کی بدولت بیسیوں باشندوں (بشمول چند وکیلوں) کو قتل کر دیا گیا تھا اور اس معرکہ کے ارتکاب پر راولپنڈی میں علی الاعلان طاقت کا مظاہرہ کیا ۔ یعنی از خود ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔
قومی ہم آہنگی آرڈیننس (NRO)نافذ کیا۔
ق۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی مہیا نہیں کی گئی اور وہ قتل ہو گئیں۔
ل۔ فاٹا کے علاقہ جنوبی وزیر ستان میں فوج بھیج کر وہاں کے باشندوں کو مشتعل کیا ۔
م چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو استعفٰ سے انکار پر معطل کیا گیا۔ اسی دوران سپریم عدالتی کونسل نے جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال کر دیا لیکن صدر پاکستان کو یہ منظور نہ تھا۔ رد عمل کے طور پر اُنہوں نے بطور COASپاکستان آرمی ایمرجنسی کا نفاذ کردیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پھر ہٹا دیئے گئے اور پانچ درجن ججوں کو ریٹائر کر دیا گیا۔
قوم کے وکلاء کی تحریک کی بدولت صدر پرویز مشرف نے جنرل الیکشن کروانے اور فوجی عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ چیف جسٹس بحال ہو گئے۔ ریٹائر شدہ جج بھی واپس آگئے اور نئی سیاسی جماعتوں نے جنرل الیکشن کے ’’مینڈیٹ ‘‘ کے مطابق پانچ سال حکومت کی۔ اس عرصہ کے دوران سابق صدر پرویز مشرف از خود ملک سے باہر چلے گئے اور وہیں بیٹھے اپنی سیاسی جماعت بنام ــ ’’آل پاکستان مسلم لیگ‘‘ (APML)بنائی اور ارادہ ظاہر کیا کہ وہ واپس آکر جنرل الیکشن میں حصہ لینگے۔ اب کے بعد وہ سیاسی لیڈر بن گئے اور افواج پاکستان سے اُن کا رابطہ ختم ہوگیا۔
سنہ 2013ء میں سیاسی قائد پرویز مشرف واپس وطن آئے اور مقدمات کے جال میں الجھ گئے ۔ سب سے اہم مقدمہ ایمرجنسی کے نفاذ کا ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے اس مقدمہ سے جان چھڑانے کی از حد کوشش کی۔ پہلے اُنہوں نے اپنی جان کے خطرے کا سبب پیش کر کے اپنے گھرکو جیل بنوایا۔ پھر عدالت میں فرد جرم عائدہونے سے بچنے کیلئے کسی نہ کسی بہانے حاضری سے گریز کیا اور آخر میں بیماری کا بہانہ بنا کر ہسپتال داخل ہوگئے۔ لیکن قانون کی رسی آہستہ آہستہ تنگ ہو تی گئی اور آخر اُن پر مارچ 2014ء میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے جرم کا مقدمہ قائم کردیاگیا۔ اب وہ غداری کے مجرم ہیں جن کا دفاع محال نظر آتا ہے۔ بطور سیاسی لیڈر اُنہیں کسی بھی شہری سے زیادہ پروٹوکول کا حق نہیں ہے۔ لیکن بطور courtesyپاکستانی فوج اور وزارت داخلہ اُنہیں خصوصی مراعات اور پروٹوکول مہیا کر رہے ہیں۔اے پی ایم ایل کے سربراہ پرویز مشرف بلا شبہ ایک ذہین آدمی ہیں۔اُن کے وکیلوں کی کھلے عام بیان بازی ۔ ان کے اپنے انٹرویو اور شیخیاں اور ذرائع ابلاغ کی غیر ذمہ دارانہ دلچسپی نے ایسا ماحول ساخت کر ڈالا ہے کہ پاکستانی فوج کو اس کیس میں فریق بنانے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کے لیڈر، رائے ساخت ، نشرو اشاعت کے علمبردار ، ایک ملزم کے اشاروں پر ناچنے لگ گئے ہیں۔
بات واضح بھی ہے اور سادہ بھی ، جب سے اور جیسے بھی پرویز مشرف صدر پاکستان بن گئے تھے وہ پوری قوم کی اولین شخصیت بن گئے تھے۔ جب وہ عہدہ صدارت سے دستبردار ہوئے وہ قابل احترام ’’سابق صدر‘‘ ہو گئے تھے اور جب اُنہوں نے ایک سیاسی پارٹی بنائی وہ باقی سیاسی جماعتوں کی طرح ایک سیاسی لیڈر بن گئے ہیں۔وہ اب بطور سیاسی لیڈر ، یا شخصی حیثیت سے اپنے آ پ کو عدالت سے صاف و شفاف کروائیں اور اپنی سیاسی ساکھ کو مضبوط کریں۔ اب اُن کی حیثیت اکیلے آدمی والی پارٹی جیسی رہ گئی ہے۔ جس طرح مرزا اسلم بیگ ، اصغر خان یا شیخ رشید احمد کی ہے۔ وہ ٹیلی ویژن اور اخبار کی زینت تو بن سکتے ہیں لیکن وہ مقام جو سابق سربراہ مملکت کا ہوتا ہے وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اور اُسے کتابوں رسائل تک ہی محدود رہنا چاہئے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک غیر منتخب سیاسی لیڈر اور الزام شدہ ملزم کو اتنی اہمیت دینا کہ اُس پر بحث کی جائے نا مناسب تھا۔ پرویز مشرف کیس کو عدالت تک ہی محدود رکھا جائے ، اُنہیں راہ فرار یا طاقت کے ذریعے معافی دلانا نا مناسب کاروائی ہو گی جس سے گریز کرنا چاہئے۔ جو پر وٹوکول سیاسی پارٹی کے اس لیڈر کواور جتنا خرچ اُن کی حفاظت پر کیا جا رہا ہے یہ بھی عوام الناس کے خون پسینے کی کمائی کا ضیاع ہے۔ اگر اُنہیں اپنی جان کا خطرہ ہے تو یہ اُن کی اپنی بوئی ہوئی فصل ہے۔ایسے آدمی کی حفاظت کروڑوں خرچ کر کے اور پروٹوکول سے اہمیت دے کر نہیں بلکہ چپکے سے جیل خانے میں بحفاظت رکھا جا سکتا ہے نہ کہ اپنے محل میں عیاشی کرے اور باہر سینکڑوں حکومتی اہلکار حفاظت کیلئے مامورہوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کیا خوب تنبیہ دی کہ ان خلقنا الانسان فی احسن تقویم ! ثم رددناہُ اسفلٰ سافلین ۔
ایک اور آیت کریمہ جو اعمال کا صلہ بتاتی ہے :۔
ومن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یراہ ! ومن یعمل مثقال ذرہ شرایراہ
عزت مآب پرویز مشرف بطور فوجی سربراہ ریٹائر ہوتے تو ہم ان سے جہانگیر کرامت اوروحید کاکڑ کی طرح سلو ک کرتے۔ اگر وہ بطور صدر ریٹائر ہوتے تو ہم اُن کا صدر ایوب خان، فضل الٰہی چوہدری ، غلام اسحاق خان ، فاروق لغاری کی طرح احترام کرتے۔ اب وہ سیاست کے میدان میں کود گئے ہیں۔ اس لئے اُنہیں چاہئے کہ باقی سیاسی جماعتوں سے مقابلہ کریں اور از خود اپنا مقام پیدا کریں اگر غداری کے مقدمہ میں قصور وار تو سزا، بری ہو گئے تو بیرون ملک آزاد پرواز کریں۔ اندرون ملک ڈیگال اورآئیزن ہاور بنیں یا مکان نمبر90کے پڑوس میں رہیں۔