حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر شام کی طرف بھیجنے کاارادہ فرمایا،جب وہ لشکر روانہ ہوا تو آپ ان کی سواری کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے ،ان کو نصیحت فرماتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
’’اے عمرو! ہر کام میں اللہ سے ڈرتے رہنا کوئی کام چاہے وہ خفیہ ہو یا اعلانیہ اس میں اللہ سے حیاء کرنا کیونکہ وہ تمہیں اور تمہارے تمام افعال کو دیکھ رہا ہے۔ تم دیکھ رہے ہومیںنے تمہیں (عسکری وجوہات کی بنا پر)امیر بنا کر ان لوگوں پر بھی مامور کردیا ہے جو تم سے زیادہ پرانے ہیں، اسلام میں تم سے سبقت بھی رکھتے ہیںاور تمہاری نسبت اسلام اورمسلمانوں کے لیے زیادہ مفید بھی ہیں۔تم آخرت کے لیے کام کرنے والے بنواورتم جو کام بھی کرومحض اللہ رب العزت کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے کرواور جو مسلمانوں تمہارے ساتھ جارہے ہیں تم ان کے ساتھ ایک باپ کی طرح شفقت کا معاملہ کرنا ،لوگوں کے اندر کی باتوں کو ہر گز افشاء کرنا بلکہ ان کے ظاہری اعمال پر اکتفاء کرلینا ،اپنے کام میں پوری محنت کرنا ،دشمن سے مقابلے کے وقت خوب جم کے لڑنااور بزدل نہ بننا(اگر مالِ غنیمت کے معاملے میں کسی قسم کی خیانت ہونے لگے تو اس )خیانت کو آگے بڑھ کر فوراً روک دینا اور اس پر تادیبی کاروائی کرنا۔جب تم اپنے ساتھیوں میں خطبہ دوتو اسے مختصر رکھنا ،اگر تم اپنے آپ کو ٹھیک رکھو گے تو تمہارے سارے ماتحت تمہارے ساتھ ٹھیک چلیں گے‘‘۔(کنزالعمال)
قاسم بن محمد کہتے ہیں،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دو افراد کو قبیلہ قضاعہ کے صدقات وصول کرنے کے لیے مقرر کیا،انہیں رخصت کرنے کے لیے ان کے ساتھ باہر تک آئے اورانہیں یوں نصیحت فرمائی۔
’’ظاہر و باطن میں اللہ سے خوف زدہ رہنا کیونکہ جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لیے ہر دشواری سے نکلنے کا راستہ ضرور بنادے گااور اس کو وہاں سے رزق دے گاجہاں سے روزی ملنے کا گمان بھی نہ ہوگااور جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کی غلطیاں معاف فرمادے گا اور اسے اجر عظیم عطا کرے گا،اللہ کے بندے جن اعمال کی ایک دوسرے کو وصیت کرتے ہیں ان میں سب سے بہترین اللہ رب العزت کا خوف ہے۔تم اس وقت اللہ کے راستوںمیں سے ایک راستے پر ہو،تمہارے اس کام میں حق کی کسی بات پر چشم پوشی کرنے کی اورکسی کام میں کوتاہی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اور جس کام میں تمہارے دین کی بھلائی ہے اورتمہارے کام کی ہر طرح سے حفاظت بھی ہے اس کام سے غفلت برتنے کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے لہٰذا سست نہ پڑنا اورکسی قسم کی کوئی کوتاہی نہ کرنا ‘‘۔(طبری،ابن عساکر)