جمعۃ المبارک ‘ 17؍ جمادی الثانی 1435ھ‘ 18 ؍ اپریل 2014ء

خیبر پی کے : پٹواری کی نیب کو 2 کروڑ 30 لاکھ ’’مفاہمت‘‘ کے طور پر دینے کی پیشکش !
ہمارے ملک میں مفاہمت کا یہی تو کمال ہے کہ اربوں روپے ہڑپ کرنے والے مگرمچھ چند کروڑ روپے کا صدقہ دے کر جان بچا لیتے ہیں چونکہ ان کی جیب اور گردن کافی بھاری ہوتی ہے اس لئے یہ سزا سے بچ جاتے ہیں۔ ’’این آر او‘‘ نامی مفاہمت کے اسی فارمولے کی فیوض و برکات سمیٹتے ہوئے سینکڑوں ارب پتی کرپٹ لوگ چند کروڑ دے کر باعزت عیش کی زندگی بسر کر رہے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک عزت اور بے عزتی میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا، حرفِ تحسین ہو یا حرفِ دشنام یہ سب ان کے لئے بے معنی ہیں۔ بقول شاعر … ؎
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
ان سے بھی کہیں بڑے مجرم ہمارے وہ سرکاری ادارے ہیں جو مجرم کو جرم ثابت ہونے کے باوجود سزا دینے سے قاصر رہتے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک غریب شہری بل جمع نہ کرانے پر سزا کا مستوجب ٹھہرتا ہے مگر اربوں روپے لوٹنے والے قومی مجرم لوٹی ہوئی رقم کا صرف چند فیصد ادا کر کے باعزت طریقے سے رہا ہو جاتے ہیں۔ یہ دوغلی پالیسی کب تک چلے گی؟ یہ عوام الناس اور اشرافیہ کا فرق دوہرے قانون و انصاف کا فلسفہ ہم سے پہلے بھی بڑی بڑی تہذیبوں کا قوموں کا تِیا پانچہ کر چکا ہے تو ہم ’’کس کھیت کی مولی‘‘ ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ احتساب کے قانون کو حرکت میں لایا جائے، نافذ کیا جائے، صرف قانون سازی کر کے مطمئن ہو کر بیٹھ جانا تو خطرناک ہوتا ہے۔ اصل امتحان قانون کا نفاذ ہے تاکہ مجرموں کو سزا ملے اور دوسرے عبرت حاصل کریں۔ اگر یہ سلسلہ اس طرح ’’مفاہمت‘‘ کے نام پر جاری رہا تو اس کا مطلب ہے کہ ’’رشوت‘‘ کو قانونی شکل دی جا رہی ہے تو پھر حکومت کا اس کے خلاف واویلا مچانا چہ معنی دارد۔ ہر مجرم کو حق ملنا چاہئے کہ وہ پیسے دے کر معافی حاصل کرے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
سینٹ میں موجود وزراء آٹے کے بھائو سے لا علم نکلے!
تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں، لاعلمی کو بھی تو آدھا علم کہتے ہیں ہمارے اکثر سیاستدان، افسران، حکمران، قدردان، بھائی جان قیام پاکستان کے بعد سے آج تک اس لاعلمی کے باوجود بفضلِ خدا عوام کے تمام مسائل سے آگہی کا ناصرف دعویٰ کرتے آئے ہیں بلکہ ان مسائل کو حل کرنے کے دعویدار بھی رہے اور پھر یہ آٹے، دال، چاول، گھی اور چینی کا بھائو یاد رکھنا غریب عوام کا کام ہے۔ ایوب خان کے دور میں جب آٹے کی قیمت سے لاعلم حکمران نے آٹے کی قیمت جو اس وقت نہایت ارازں تھا میں معمولی اضافہ کیا تو حبیب جالب جیسا عوامی شاعر عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے چیخ اٹھا تھا …؎
بیس روپے من آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا
پھر اس کے بعد تو یہ سلسلہ چل نکلا اور دال روٹی کا حصول ہی غریب عوام کی زندگی کا مقصد ٹھہر گیا۔ روٹی کپڑا اور مکان سے لیکر خوشحال مستقبل کی نوید دینے والوں نے غریبوں کو ’’دال روٹی‘‘ کے چکر میں الجھائے رکھا اور خود عیش سے حکومت کرتے رہے۔ ایک خوشحال اور سرسبز ملک جو زرعی پیداوار کا مرکز ہے جسے انگریزوں نے بھی سونے کی چڑیا کہا آج اپنے باسیوں کے پیٹ بھرنے سے قاصر ہے اس کی وجہ کیا ہے … ؎
آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
منافع خوری، ذخیرہ اندوزی کی لعنت ختم کریں‘ عوام پر رزق کے دروازے بند نہ کریں۔ ہمارے لاعلم وزراء کرام یہ ضرور یاد رکھیں کہ اس وقت غریبوں کیلئے زندگی گزارنی مشکل ہو گئی ہے مگر اعلیٰ کوالٹی کی غیر ملکی کمپنیوں کی مہنگے داموں اشیائے خورد و نوش استعمال کرنے والے ان وزراء کو بھلا ان چیزوں کے ریٹ کیا معلوم ہوں گے۔ یہ تو پانی بھی بیرون ملک سے منگوا کر استعمال کرتے ہیں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
بھارت میں 12 انچ لمبی دُم والے بچے کو ہنومان کا اوتار قرار دیدیا گیا!
لاتعداد دیویوں اور دیوتائوں کے ہوتے ہوئے اب بھلا ہندومت میں کسی نئے دیوتا یا دیوی کی کونسی گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔ اگر یہ رفتار یونہی بڑھتی رہی تو خطرہ ہے کہ ان دیوی اور دیوتائوں میں کہیں کوئی نئی ’’مہا بھارت‘‘ نہ چھڑ جائے جس کے اثرات اچھے یا بُرے ان کے پیروکاروں پر بھی پڑ سکتے ہیں اور وہ بھی تقسیم ہو کر ایک دوسرے کو ختم کرنے نہ لگ جائیں۔ جیسے کورؤں اور پانڈئوں نے ایک دوسرے کو کیا تھا۔
ویسے اس وقت الیکشن کے دنوں میں تو نریندر مودی جیسا انسانی خون پینے والا ’’راکھشس‘‘ بھی دیوتا سمان بننے کی اداکاری کر رہا ہے اور کروڑوں ووٹر اسے بھی دیوتا سمان قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ’’راون‘‘ کو کوئی ’’رام‘‘ بنا دے۔ عقیدت اپنی جگہ مگر حقیقت بھی اپنی جگہ ہوتی ہے۔ اس کے باوجود یہ بچہ تو اب اپنے والدین کیلئے بڑا ’’بھاگوان‘‘ ثابت ہو رہا ہے کہ اب اس پر چڑھاوے چڑھیں گے، لوگ لاکھوں روپے اسکے چرنوں میں دان کریں گے، اسکی پوجا بھی ہو گی۔
مگر اس کے ساتھ خطرہ بھی ہے کہ ’’بجرنگ دل‘‘ جیسی انتہا پسند مذہبی تنظیمیںکہیں اس بچے پر دعویٰ کر کے اپنا اوتار بنا کر ساتھ نہ لے جائیں کیونکہ ’’بجرنگ دل‘‘ بھی ہنومان کی پُجاری ہے۔ اب یہ علیحدہ بحث ہے کہ ہنومان نے لنکا کو جلا ڈالا تھا اور یہ جماعت بھارت میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر خوشحال مسلمانوں کے گھر جلاتی پھرتی ہے اور کوئی اسے روکنے والا نہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...