"تربت کے نواح میں دہشت گردوں نے سندھ اور پنجاب کے بائیس مزدوروں کو رات کے اندھیرے میں گولیوں سے بھون ڈالا۔"کتنا آسان ہے یہ خبر کسی اخبار کی شہ سرخی بنا دینا یا بریکنگ نیوز بنا کر ناظرین کو اچانک پیش کر دینا لیکن کتنا مشکل ہے اس خبر کے اندر چھپے درد کو محسوس کرنا۔ دل دہل جاتا ہے ایسی خبروں کی خبریت کی سنگینی کا احساس کرکے۔ سانحہ تربت کی خبر کے متن میں بھی جھانک کر دیکھیں تو کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔ چند لمحوں کی کارروائی میں یک آن کتنے گھروں کے چراغ بجھ گئے ٗکتنے خاندانوں کے ارمان خاک و خون میں نہلا دئیے گئے۔ کسی کے جگر کا ٹکڑا چٹکیوں میں خاک میں مل گیا تو کسی دوپٹّے کو ترستی دوشیزہ کا سہاگ بے رحم لمحوں نے چشم زدن میں ڈکار لیا۔ کوئی بچی باپ کی میت سے لپٹ کر زندہ درگور ہو گئی تو کسی ماں کے بڑھاپے کا واحد سہارا مٹی میں لت پت پڑا تھا۔ تربت کے بیابانوں میں ستم کی وہ رات قیامت صغریٰ کی جھلک دکھا کر بھوک اور پیاس کی بستی میں بستے بے بس لوگوں کے کچے گھروندوں میں موت کے سندیسے بانٹ کر ان کے باسیوں کو ہمیشہ کے لیے سوگوار کر گئی۔
ہم نے یہ ملک بناتے وقت لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ انہیں انصاف اور قانون پر مبنی معاشرہ ٗ جان و مال کا تحفظ ٗتعلیم و صحت اور با عزت روزگار فراہم کریں گے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے 1947ء میں دستورسازاسمبلی کا خطبٔہ صدارت دیتے ہوئے فرمایا تھا:"اگرہم اس عظیم مملکت کومضبوط اورخوش حال بناناچاہتے ہیںتوہمیںاپنی توجہ لوگوں اوربالخصوص غریب طبقے کی فلاح وبہبودپر مرکوزکرنی پڑے گی۔"لیکن یہ ملک بن گیا تو گوروں کے پڑھے لکھے ٗعیار اور خود غرض غلام کالے انگریزوں ٗ فوجی اور سول اشرافیہ نے قائداعظم کاچارٹرپس پشت ڈال کر اس ملک کے وسائل پر قبضہ کر کے غریب کی زندگی کے پائوں میں مجبوری اور بے کسی کی بیڑیاں ڈال دیں۔ پاکستان کاغریب چھوٹی چھوٹی ضرورتوں ٗخواہشوں اورخوشیوں کے لیے خون پسینہ ایک کردیتاہے لیکن مایوسیوں کے سواکچھ ہاتھ نہیں آتا۔ بس ایک موت ہے جواسے ہرقدم پرراہ پڑے مل جاتی ہے۔
تربت میں بے موت مارے جانے والے 15 مزدوروں کا تعلق سرائیکی علاقے سے ہے۔ ملک میںسرائیکی محنت کشوں کے قتل عام کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ موت ہمیشہ ان حرماں نصیبوں کے تعاقب میں رہتی ہے۔اپنے گھر میں بے کسی اوراجنبیت منہ چڑاتی ہے تو یہ سو دو سو دیہاڑی کی آس میں گھروں سے نکل کھڑے ہوتے ہیں تو کراچی میں انہیں اجتماعی طور پر زندہ جلا دیا جاتا ہے ٗکراچی کے مضافات میں ایک دربار میں بھی انہیں بسیرا نصیب نہیں ہوتا اور رات کے اندھیرے میں ان کے گلے کاٹ دئیے جاتے ہیں ٗ حب میں انہیں ایک ساتھ ذبح کر دیا جاتا ہے اور تربت کے بیابانوں میں بھی موت ان کا مقدر بنتی ہے۔ یہ ہے پاکستان سے سچی محبت کی سزا۔ یہ تحریک پاکستان کے سپاہی نہیں ہیں اور نہ ہی انہوں نے ہجرت کی قربانی دی اور نہ ہی وہ پاکستان کے قیام کاحصہ بننے پر کسی تمغے کی احتیاج رکھتے ہیں۔ ملک بن رہا تھا تو انہوں نے آمنا و صدقنا کہا ٗ بن گیا تو انہوں نے اپنے سینے پر کھینچی گئی لکیریں نہ صرف قبول کیں بلکہ اس تقسیم اوراس کے نتیجے میں پیداہونے والی ناروائی کوبھی خوشی سے سینے لگایا۔مگر آج وہ اپنے ہی وطن میں بے وطن ہیں اور اجنبیوں اورمظلوموں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں:
تتی تھی جوگن چودھار پھراں
ہند ٗ سندھ ٗ پنجاب تے ماڑ پھراں
سنج بر تے شہر ٗ بزار پھراں
متاں یارملم کہیں سانگ سبب
( ترجمہ:میرامرشد خواجہ غلام فرید کہتا ہے ٗمسائل کے مارے لوگ جوگیوں کی طرح مارے مارے پھر رہے ہیں ٗہند ٗسندھ ٗپنجاب اور بلوچستان میں در بدر بھٹکتے پھر رہے ہیں ٗانہوں نے بیاباں ٗ شہروں بازاروں میں بھی جا کر دیکھ لیا کہ شاید کہیں منزل مقدر بن جائے مگرکہاں۔)اس ملک میں امیر آدمی دونوں ہاتھ سے دولت سمیٹ کر لوٹاہواپیسہ اور اپنے بچے باہر منتقل کر رہا ہے اور غریبوں کے بچے گھروں میں ٗ گلیوں اور بازاروں میں ٗاسکولوں میں یا تو غربت و افلاس کے ہاتھوں مارے جارہے ہیں یا دہشت گردوں کے ہاتھوں تہہ تیغ کئے جا رہے ہیں۔ملک کے کونے کونے میں غربت کی لعنت نے خاندانوں کے خاندان اجاڑ دئیے ہیں۔ کہیں کوئی ماں بھوک سے بلکتے لخت جگر کو دو وقت کی روٹی کے وعدے پر کالعدم تنظیموں کی نرسریوں میں بھیج دیتی ہے تو کہیں کوئی باپ اپنے معصوم بچے کاجسم خلیج میں اونٹوں کی ریس کے لیے اونے پونے فروخت کر دیتا ہے۔ بالخصوص سرائیکی وسیب میں زندگی اجیرن ہے ٗپاکستان کو اپنا مقدر بنانے والے آج پاکستان سے محبت کی سزا بھگتنے پر مجبور ہیں۔ امن وآشتی کے پیامبرمرشد خواجہ غلام فرید کی نگری کے بیٹے ٗیہ فریدی اپنے ہی وطن میں بے موت مارے جا رہے ہیں ٗلاشیں ہیں کہ ہر طرف بکھری پڑی ہیں ٗ ان معصوم فریدیوں ٗ ان دربہ دربھٹکتے محنت کشوںکے قاتل بھوک ٗ پیاس اور افلاس نہیں اور نہ ہی دہشت گرد ہیں ٗان کی ہلاکت کاذمہ داریہ فرسودہ نظام ہے اور ان کی موت کے ذمہ دار ظالم وڈیرے ٗ خودغرض سردار تمن دار ٗوسائل پرقابض چوہدری ٗاسلام کے ٹھیکیدار مولوی ٗغریب دشمن افسرشاہی ٗنظریہ ضرورت کے علمدارجج اور جرنیل اوربدعنوان سیاست دان ہیںجنہوں نے وطن کے لاکھوں کروڑوںبے سروساماں بیٹوں کوغلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھاہے۔غلامی کی یہ زنجیریں تب ٹوٹیں گی جب غریب اٹھ کھڑا ہوگااوراپنے حق کے لیے ظالموں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالے گا۔