قوموں کی زندگی میں تاریخ کی اہمیت وہی ہے جو کہ ایک فرد کی زندگی میں اسکی یادداشت کی ہوتی ہے۔ تاریخی وثقافتی ورثہ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ کے ادارے" یونیسکو "نے 16 نومبر 1972 ء کو پہلی مرتبہ قدیم تہذیبوں ،ثقافت اور آثار قدیمہ کو محفوظ بنانے کی منظوری دی۔اور اس عزم کا اظہار کیا کہ دنیا میں قدیم اور جدید تہذیبوں کے آثار قدیمہ ،ثقافت،کو محفوظ بنایا جائے۔ ہر سال 18اپریل کو دنیا بھر میں ثقافتی ورثہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ پاکستان دنیا کا خوبصورت ملک ہے جس میں پہاڑ ،دریا،قدرتی مناظر ،لہلاتے کھیت چولستان کے علاوہ تاریخی مقامات، شمالی علاقہ جات کے دل کو چھو لینے والے مقامات اور بہت کچھ اس سرزمین کو منفرد بناتے ہیں۔پاکستان کے تاریخی مقامات جن کو عالمی ثقافتی ورثہ کا حصہ بنا یا گیا ہے ان میں موئن جو دڑو، ٹیکسلا ،تخت بھائی کے کھنڈرات ، قربی شہر سیری بہلول کی باقیات، قلعہ لاہور اور شالامار باغ ،مکلی کا قبرستان اور قلعہ روہتاس شامل ہیں ۔ انکے علاوہ پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے ہو ئے ورثہ کے تحفظ اور بچاؤکیلئے حکومت کی طرف سے عملی اقدامات سے ہمیشہ گریز کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور تہذیب (یونیسکو) نے تہذیبی اور قدرتی اہمیت کے حامل 8 مزیدپاکستانی مقامات کو عالمی ثقافتی ورثوں کی فہرست میں شامل کرنے کی بھی منظوری دی ہے ۔محکمہ آرکیالوجی اور میوزیم (ڈی او اے ایم) کی جانب سے بجھوائی گئی فہرست میں چولستان کے قلعہ دراوڑ، بلوچستان میں ہنگول کے تہذیبی مقامات، سندھ کے ریگستانی علاقے نگرپارکر کے مناظر، گلگت بلتستان میں موجود قراقرم اور دیوسائی نیشنل پارک، بلوچستان میں زیارت، جونیپر کے جنگلات اور کاریز سسٹم کے مناظر سمیت پنجاب میں موجود کھیوڑہ کی نمک کی کان کو یونیسکو نے منظور کیا ہے ۔ اس سے قبل بھی 2004 میں یونیسکو نے ہڑپہ، بلتت قلعہ، رحمٰن ڈھیری، مہر گڑھ سمیت مانسہرہ اور شہباز گڑھی کے چٹانی مقامات کو عالمی ورثے میں شامل کرنے کی منظوری دی تھی تاہم پاکستان ان مقامات کی مطلوبہ رپورٹس یونیسکو میں جمع نہیں کراسکا تھا۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم پہلے سے شامل شدہ تاریخی ورثہ کی مطلوبہ احتیاطی تدابیر کو پورا نہیں کررہے ۔ 1995-96 میں یونیسکو کی جانب سے لاہور کے شالیمار باغ کو عالمی ورثے کی فہرست میں سے ہٹایا گیا تھا اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے واٹر پمپ سسٹم کو تباہ کرنے کی وجہ سے اسے خطرے کا شکار قرار دیا گیا تھا۔واضح رہے کہ تباہ کیا گیا واٹر سسٹم 450 سالہ قدیم باغات کے 400 سے زائد فواروں کو پانی پہنچانے کا ذریعہ تھا۔چند سال قبل عالمی ورثے میں شامل ٹیکسلا کا دھرناراجیکا مقام بھی فوجی حکام کی جانب سے بند کردیا گیا تھا جسکے نتیجے میں ممکنہ طور پر بدھا کی جائے پیدائش قرار دیئے جانیوالے مقام تک رسائی ممکن نہیں رہی تھی۔ لاہور میں تاریخی عمارات کی حفاظت کیلئے لاہور والڈ سٹی اتھارٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا مگر اسکے کام کی رفتار بہت سست ہے ۔5 جون 1977ء کو فرانس کے ماہرین آثار قدیمہ نے بلوچستان میں درہ بولان کے دامن میں مہر گڑھ کی مقام پر 3000 سے 7000 برس قبل مسیح کے آثار کی دریافتگی کا اعلان کیا۔مگر بدقسمتی سے ہم اسے یونیسکو کے عالمی ورثہ کا حصہ ڈیکلیئر نہیں کراسکے اور اس تاریخی تہذیبی ورثہ کو محفوظ کرنے میں ناکام ہوئے اور یہ تباہ وبرباد ہوگیا ہے۔ اسکے علاوہ بہت سی تاریخی عمارات شہروں میں ترقیاتی پراجیکٹس کی نظر بھی ہورہی ہیں جیسے اورنج لائین ٹرین کی وجہ سے چوبرجی ودیگر تاریخی عمارات کے متاثر ہونے کا کیس عدالتوں میں چل رہا ہے ۔ اپنے دور میں شان وشوکت کی علامت سمجھے جانے والی تاریخی عمارات نے اپنے وقت کے حکمرانوں کا عروج وزوال دیکھا اور شاندار ماضی سے لیکر اب تک کی حالت زار ہمارے حکمرانوں کیلئے نشان عبرت ہے ۔ماہرین آثار قدیمہ کہتے ہیں کہ جو کچھ تباہ ہوگیا اسے تو واپس نہیں لایا جاسکتا لیکن جو کچھ باقی ہے اسے بحال کرنے اور بچانے کی کوششیں ضرور کی جا سکتی ہیں ورنہ قدیم اور انمول ورثہ بھی صفحہ ہستی سے مٹ کر صرف تاریخ کی کتابوں کے صفحات تک محدود رہ جائے گا۔
انمول تاریخی ورثہ تباہی کاشکار
Apr 18, 2017