” مدحت نواز شریف اور مذمتِ عمران خان“

وزیر اعظم کے ارد گرد ایسے لوگ موجود ہیں جو فوج کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں۔ یہی لوگ اکثرعمران خان کے خلاف بھی اسی قسم کی گفتگو کرتے ہیں گوکہ ان کی تعداد مخصوص ہے مگر ان کے پاس بہت اہم محکمے موجود ہیں۔ جو اس وقت ان کی عدم توجہی کی بنا پرمکمل طور پر تباہ حالی کا شکار ہیں۔ وزیر اعظم جوکہ ایک بادشاہ کی طرح زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں۔ اس وقت ان کو وزراءکے محکموں میں کارکردگی کی کوئی فکر نہیں، وزیر اعظم اسی سے خوش ہوتے ہیں جو ان کی زیادہ اچھے انداز میں مد حت سرائی کرے۔ گورنر سندھ نے پاک فوج کے ایک بہادر جرنل راحیل شریف کے خلاف بیان دیا اور وہ اس طرح کے بیانات گورنر بننے سے پہلے بھی دیا کرتے تھے۔ نواز لیگ کے دیگر وزراءکے ساتھ گورنر سندھ کا بھی یہی کام تھا کہ ”مدحت نواز شریف اور مذمتِ عمران خان“۔ گورنر سندھ بننے کے بعد انہوں نے تھوڑے عرصے کے لئے بیان بازی کا سلسلہ بند کردیا تھا۔ لیکن چند ہفتوں کے بعد انہوں نے حسب عادت وہی کام کیا جن کے انعام میں انہیں گورنری کا عہدہ ملا تھا۔ لگتا یہ ہے کہ وزیر اعظم نے دو قسم کی پالیسیاں بنا رکھی ہیں۔ یعنی خود کم گفتگو کرتے ہیں اور دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے کے لئے الگ سے بندے پال رکھے ہیں۔ اگرچہ ان کا زیادہ وقت عمران خان پر تنقید کرنے پر گزرتا ہے لیکن یہ لوگ وقتاً فوقتاً فوج پر بھی تنقید کا حملہ کرتے رہتے ہیں۔ تاکہ اپنے وزیراعظم کو خوش کیا جاسکے ،مسلم لیگ نواز نے ایک ایسے سیاسی کلچرل کو فروغ دیا ہے جس میں لیڈر سے وفاداری کا اظہار لازم ہے۔ اور اپنی وفاداری کو زیادہ موثر بنانے کے لئے اس لیڈر کے سیاسی مخالفین پر گند اچھالنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا نواز لیگ نے اپنی اناکی تسکین کے لئے اسی قسم کی ایک ٹیم کو تشکیل دے رکھا ہے۔ جن میں مندرجہ بالا ناموں کے علاوہ کچھ اور نام بھی سرفہرست ہیں۔ جوصبح و شام ایک ہی نغمہ الاپتے رہتے ہیں اور اس طرح پارٹی قائدین میں ان کی قبولیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔جب یہ لوگ افواج پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو درحقیقت وہ نواز شریف کی خواہش کو اپنے الفاظ دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس منفی پروپیگنڈہ سے سول اور ملٹری تعلقات کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ جس سے ملک میں سیاسی غیر یقینی کی صورت پیدا ہو رہی ہے، اگر حکومت عوامی فلاح کے کام بڑھا دے تو یقینا عوام میں ان کے خلاف جو نفرت کا مادہ پنپ رہا ہے وہ خوشحالی میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ وزیراعظم صاحب جیکب آباد کے عوام کو اپنے اقتدار کے چار سالوں بعد سو عدد ٹرانسفارمر دینے آئے تھے مگرافسوس وہ اپنے ساتھ بجلی لے جانا بھول گئے۔ لیکن کامیابی یہ تھی کہ ان کے ساتھ جو ان کے پرائیویٹ جہاز سے وزراءبرآمد ہوئے ان میں خاصہ کرنٹ موجود تھا۔ جن کی بجلیاں جیکب آباد کے عوام نے سخت دھوپ میں دن کے چار گھنٹے برداشت بھی کیں اور محسوس بھی کی۔ وزیراعظم جس انداز میں جیکب آباد کے عوام سے بات کررہے تھے ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی احسان عظیم کررہے ہوں۔ وہ اس بات کو بھول رہے تھے کہ یہ پیسہ جو وہ کبھی کبھار ہی تقسیم کرتے ہیں ان کی جیب سے نہیں جاتا بلکہ سرکاری فنڈ سے نکالا جاتا ہے۔ یا پھر کہیں کا کام رکتا ہے تو کہیں کا کام شروع کردیا جاتا ہے۔ اس میں کئی ٹھیکیدار اپنی جیبیں بھی بھر لیتے ہیںاور عوام کا نام لے کر اپنے سراﺅں کی خدمت بھی ہوجاتی ہے۔ قائرین کرام اس وقت پانامہ لیکس کا معاملہ عدالت میں التوا کا شکار ہے جو سمجھ سے بالا تر ہے کہ وہ کب عوام کے سامنے لایا جاتاہے اور اس دیری کی کیا وجوہات ہیں بات سیدھی ہے اگر وزیراعظم پاکدامن ہیں تو قوم کو بتادیا جائے اور اگرمجرم ہے تو سزا کیوں نہیں دیتے !! وزیراعظم کے سیاسی مخالفین عمران خان اور دیگر رہنماﺅں نے تو یہ تک کہہ دیاہے کہ فیصلہ جو بھی ہے قبول کیا جائے گامگر پھر بھی انتظار تو ہے ! اس پر ہمارے وزیراعظم اس فیصلے کی دیری سے خاصے خوش دکھائی دیتے ہیں جس کی بناپر وہ آج کل قومی خزانے سے خوب انجوائے کررہے ہیں جگہ جگہ سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے کے جلسے کاغذی ٹرانسفارمر اوروزیراعلی پنجاب کے وعدوں کی بجلی کیا خوب ترقی کا عالم ہے۔ اور اس میں بے حد ڈھیٹ وزرا کا ساتھ ، میں سمجھتا ہوں کہ یا تو ہمارے عوام پاگل ہیں یا پھر وزیراعظم اور ان کی ٹیم نہیں تو میرا ہی دماغ خراب ہے جو مجھے وزیراعظم کی نیکیاں بھی شیطان کا بنایا ہوا جال دکھائی دیتی ہیں ،کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ عوام اندھیرے میں بیٹھے ہیں اورہیٹ اسٹروک سے مررہے ہیں اور اس کا وزیرعمران خان کے خلاف آئے دن پریس کانفرنسوں میں مصروف ہے کیا یہ غلط ہے کہ ریلوئے میں اس صدی کے سب سے زیادہ حادثات ان چار سالوں میں ہوئے اور اس کا وزیراس کا قصور بھی عمران خان پر ہی ڈال رہے ہیں ؟ کیا یہ بھی غلط ہے کہ عوام بھوک افلاس اور مہنگائی کے ہاتھوں اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہیں اور وزیرخزانہ کبھی کسی کو تو کبھی چیئرمین سینٹ کے قدموں میں انہیں منانے کے لیے دکھائی دیتے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ کیا ان لوگوں کے دلوں میں ذرا سا بھی خدا کا خوف نہیں ہے ،عوام کو کچھ زیادہ ہی بے وقوف سمجھ رکھاہے ادھر سندھ حکومت سب اختیار ہونے کے باجود خود بھی سڑکوں پر نکلی ہوئی ہے یعنی انہوں نے دیکھا کہ اس وقت سڑکوں پر ساری ہی جماعتیں موجود ہیں تو ہم اسمبلیوں میں بیٹھ کر کیا کریں گے اور اوپر سے الیکشن بھی قریب آچلے ہیں لہٰذا ہم بھی سڑکوں پر ہی نکلتے ہیں ۔ اکثر الیکشن کے قریب آتے ہی اس ملک کے روایتی سیاستدانوں کو اس ملک میں مہنگائی اور لوڈشیڈنگ جیسے مسائل نظرآنا شروع ہوجاتے ہیں۔پیپلزپارٹی کے قائدحزب اختلاف اس وقت جو غربت زدہ بیانات دے رہے ہیں انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اس ملک کی تباہی میں کس کس کا ہاتھ ہے اور خود ان کا اور ان کی جماعت کا کتنا حصہ ہے،ان لوگوں سے کیا شکوہ کریں کہ جن کے جرم کی داستانوں کو ہر ایک اچھی طرح جان چکاہے اس کے باوجود ان پر ہاتھ ڈالنا اس ملک میں ناممکن سا عمل ہے اس قدر ظلم وستم کے باجود بھی ان حکمرانوں کے دلوں میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ وہ ان مظلو م لوگوں پر کوئی احسان ہی کردیں ان کے مسائل ہی حل کردیں ناکہ انہیں بے وقوف بناکر ان سے صرف ووٹ ہی مانگا جائے ۔

ای پیپر دی نیشن