اسلام آباد (این این آئی)ترجمان وزارت داخلہ نے خانانی اینڈ کالیا منی لانڈرنگ کیس سے متعلق شائع ہونے والے ایک اداریئے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ملکی مفاد میں اور نہایت نیک نیتی سے شروع کئے جانے والے کسی کام میں چند حلقوں کی جانب سے رہنمائی اور معاونت کی بجائے بے جا تنقید اور کیڑے نکالنے کی روش اختیار کی جاتی ہے۔ خانانی اینڈ کالیا کیس اس سلسلے میں ایک واضح مثال ہے۔ ترجمان نے کہا کہ وزیر داخلہ نے گذشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں ایک اخباری خبر کی وضاحت کرتے ہوئے خانانی اینڈ کالیا کیس سے متعلق کچھ حقائق قوم کے سامنے رکھے۔ ترجمان نے کہا کہ ایسے حلقے اس طرح کے بیانات داغنے سے پہلے کم از کم زمینی حقائق کا تو مطالعہ کریں تاکہ ان پر کسی حد تک اصل صورتحال واضح ہو سکے۔ ترجمان نے کہا کہ وزیرِ داخلہ کے نوٹس میں یہ کیس اس وقت آیا جب خانانی اینڈ کالیا کمپنی کے ایک مالک الطاف خانانی پر امریکہ میں فرد جرم عائد کی گئی۔ اس مسئلے کو ازسرنو اٹھانے میں بڑا مسئلہ ڈبل جیوپرڈی کی قانونی شق یعنی کہ ایک مقدمے میں عدالت سے بری ہونے کی صورت میں اسی کیس میں از سر نو تفتیش نہیں ہو سکتی۔ دوئم جب سارے شواہد اور خاص طور پر ڈیجیٹل ریکارڈ مثلاً کمپیوٹرز، سرور اور دیگر آلات اسی کمپنی کو ہی واپس کر دیئے گئے ہوں جن پر الزام ہو تو ایسے حالات میں بے جا تنقید کرنے والے حلقے خود ہی بتائیں کہ وہ کون سی بنیاد ہے جن پر ان کے بقول کچھ کر دکھانے کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ یہ واضح کرنا نہایت ضروری ہے کہ ایک دس سالہ پرانے کیس جس کے اکثر و بیشتر شواہد مٹا دیئے گئے ہیں اور مٹانے والے ریٹائرڈ ہو چکے ہیں تو اس معاملے کا از سر نو احیاءایک مشکل ترین کام ہے مگر چونکہ اربوں روپوں کا سرمایہ صرف ایک چینل سے بیرون ملک بھیجا گیا اس لئے اس نہایت اہم کیس کو ازسرنو فعال کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔