بجلی کے انڈسٹری کنکشن کی سکیورٹی فیس ختم، بنک گارنٹی دی جائیگی

Apr 18, 2017

لاہور (ندیم بسرا) وزارت پانی و بجلی اور نیپرا نے تمام تقسیم کار کمپنیوں کے انڈسٹری کے نئے کنکشنوں کی سکیورٹی فیس کی کیش کی رقم ختم کردی۔ تمام انڈسٹری کے کنکشن کی سکیورٹی فیس تقسیم کار کمپنیوں کے اکاﺅنٹ میں جمع کروانے کی بجائے کسی بھی بنک کی گارنٹی دے سکتے ہیں۔ لیسکو سمیت دیگر کمپنیوں میں پہلے سے انڈسٹری کنکشنوں کی مد میں جمع کروائی گئی سکیورٹی کی فیس واپسی کا مطالبہ کرنے لگے۔ کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق وزارت پانی و بجلی اور نیپرا حکام نے نئے انڈسٹری کنکشنوں کی مد میں جمع کرائی جانے والی کیش کی مد میں سکیورٹی رقم ختم کرتے ہوئے قرار دیا ہے اب سکیورٹی کی مد میں کیس رقم بنکوں میں جمع نہیں ہوگی۔ اس کے بعد نئے کنکشن کے انڈسٹری صارفین سکیورٹی کی رقم تقسیم کار کمپنیوں میں جمع کرانے کی بجائے 200 روپے کے اشٹام پیپر دے کر جان چھڑانے لگے۔ لیسکو میں اس حوالے سے بتایا گیا ہے اربوں روپے سکیورٹی کی مد میں لیسکو کے بنک اکاﺅنٹس میں موجود ہیں جن کی واپسی کا مطالبہ انڈسٹری صارفین کی طرف سے کیا جارہا ہے۔ لیسکو حدود میں فیروز وٹواں شیخوپورہ میں واقع معروف انڈسٹری نے چیف انجینئر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اور چیف فنانشل آفیسر لیسکو نے بنک گارنٹی کو قبول کرلیا ہے جس کے تحت اس انڈسٹری کی سکیورٹی فیس 64 لاکھ 82 ہزار 7 سو روپے بنتی ہے۔ دوسری معروف فرم 7 کلومیٹر آف مانگا رائے ونڈ روڈ قصور کی سکیورٹی کی رقم 39 لاکھ 60 ہزار روپے بنتی ہے۔ وصول کرنے کی بجائے 200 روپے کے اشٹام پر بنک گارنٹی قبول کرلی ہے۔ لیسکو ذرائع کا کہنا ہے ایک گھریلو صارف 2 کلوواٹ لوڈ اپلائی کرتا ہے تو اس کی سکیورٹی 2440 روپے بنتی ہے جس کو لیسکو ڈیمانڈنوٹس میں ڈال کر وصول کرلیتا ہے۔ دوسری طرف ظلم یہ ہے انڈسٹری صارفین جن لوڈ 30 کلوواٹ سے ہزاروں کلو واٹ ہوتاہے، سے لاکھوں روپے سکیورٹی فیس وصول کرنے کی بجائے 200 روپے کے اشٹام پیپر وصول کرلیا جاتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے تمام انڈسٹری صارفین نے لیسکو سمیت دیگر تقسیم کار کمپنیوں سے اپنی سکیورٹی کی رقم وصول کرلی تو لیسکو کا خسارہ بڑھ جائیگا جس کے نتیجے میں ظلم گھریلو صارف پر ہوگا جن کو اوور بلنگ کا سامنا کرنا پڑیگا۔ اس حوالے سے وزیراعظم پاکستان کو گھریلو صارفین کو ریلیف دینا چاہئے کیونکہ پاکستان میں گھریلو صارفین کی تعداد ٹوٹل صارفین کا 84 فیصد ہیں، باقی 16 فیصد انڈسٹری ہے۔

مزیدخبریں