پوری دنیا کے حکمرانوں کا خیال ہے کہ 1991ء میں سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد سے ریاست ہائے متحدہ امریکا کرۂ ارض کی واحد سپر پاور ہے۔ اس کے ساتھ ہی لبرل جمہوریت اور آزاد منڈی اعلیٰ ترین غالب نظریات بن گئے۔ کمیونزم پسپا ہو گیا۔ بین الاقوامی حکمرانی اور بین الاقوامی امور کبھی اتنے سادہ نہیں رہے۔ حالیہ عشروں میں چین نے ایک بارپھر پرانے مباحثے کو نئی زندگی دی ہے کہ جمہوریت کے علاوہ بھی سٹیٹ کرافٹ کا ایک نظام ہو سکتا ہے۔ برِ اعظم یورپ اور برِ اعظم شمالی امریکا کے ملکوں کی رائے ہے کہ انتخابات ترقی اورقوم سازی کا واحد راستہ ہیں، نا صرف اُن کے لیے بلکہ ہر قوم کے لیے۔ دسیوں لاکھ لوگوں کو غربت و افلاس سے نکال کر اعلیٰ درجے کے معیارِ زندگی تک پہنچا دینے والی دنیا کی تیزترین ترقی کرتی معیشت ایک متبادل نظام کے حق میں ٹھوس دلیل لگتی ہے۔ ممکن ہے میرٹ کی حکمرانی (میرٹوکریسی) عوامی رائے دہندگی کے نظام کی جگہ لینے کی استعداد رکھتی ہو، جو دنیا کے بہت سے ملکوں میں بہتری نہیں لا سکی۔پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومتی سطح پر میرٹ کی حکمرانی کا تصور کوئی جدید تصور نہیں ہے۔ سن زو اور کنفیوشس جیسے فلسفیوں نے چھٹی صدی قبل از مسیح میں حکومتی مناصب سنبھالنے والوں کا انتخاب صرف اہلیت کی بنیاد پر کرنے کا نظریہ پیش کیا تھا۔ چین کی مرکزی حکومت نے ’’سلیکشن مع الیکشن‘‘ کے تصور کی صورت میں اپنے قدیم فلسفیوں کی دانش کا احیا کیا ہے۔ اس کا سادہ سا مطلب ہے کہ سیاسی راہنماؤں کو مختلف مراحل میں ان کی کارکردگی اور جامع قدر پیمائی کی بنیاد پرترقی دے کر اعلیٰ مناصب پر فائز کیا جاتا ہے۔ تمام وزارتوں کے سربراہان کو مختلف عہدوں پر ان کی ماضی کی کارکردگی اور آزمائشوں اور جانچ پڑتال کے بعد متعین کیا جاتا ہے اور سینیئر عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے۔ درجہ بدرجہ آزمائش اور کارکردگی کی قدر پیمائی کام کرنے کے جذبے سے عاری افسران کو خارج کر دیتی ہے اور صرف اعلیٰ ترین کارکردگی کا ریکارڈ رکھنے والوں کو ترقی دیتی ہے۔ اس طرح سینٹرل کمیونسٹ پارٹی غیر مستحق افراد کو اختیارات دے کر ا پنی اتھارٹی غلط استعمال نہیں کرتی۔ میرٹ اور فضیلت سب سے برتر ہیں۔ ہر منصب کے لیے ایک طے شدہ معیار ہے اور قائدانہ منصب کی کسی خاص سطح کو سنبھالنے کے لیے ایک افسر کو ان معیارات پر لازمی پورا اترنا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انتخابات کا نظام بھی موجود ہے جس میں ووٹ کا حق متعلقہ اشخاص کو حاصل ہے جو خود بھی قدرپیمائی اور کارکردگی جانچنے کے وسیع تجربے کے حامل ہوتے ہیں۔ حکمرانی کے اس انداز کا مقصد صرف ایسے افراد کو آگے بڑھنے کا موقع دینا ہے جو کامیابی اور اعلیٰ کارکردگی کی اہلیت رکھتے ہوں۔
میرٹ کی حکمرانی کو فروغ دینے والوں کو یہ نظام ریاستی امور میں طویل عرصے تک شامل رکھ سکتا ہے۔ میرٹ کی حکمرانی کے لبرل جمہوریت سے افضل ہونے کا تصور اس حقیقت سے پھوٹتا ہے کہ لبرل جمہوریت میں عوامی انتخابات کے حوالے سے تصور کیا گیا ہے کہ تمام افراد عقل مند ہیں اور کسی قوم کی کامیابی کے لیے ضروری بہترین فیصلے کرنے کے لیے درکار علم کے حامل ہیں۔ اس کی بجائے میرٹ کی حکمرانی عوام کی رائے کے مقابلے میں درست سلیکشن کے واضح ثبوت کے طور پر کڑے معیارات پر انحصار کرتی ہے۔ دوم، میرٹ کی حکمرانی کو حکمرانی میں ایک انقلاب تصور کیا جاتا ہے کیونکہ جمہوری حکومتیں نام نہاد ’’اگلے انتخابات‘‘پر توجہ مرکوز رکھتی ہیں جبکہ میرٹ کی حکمرانی پر عمل کرنے والی حکومت تشہیر اور عوامی حمایت حاصل کرنے کی بجائے طویل المیعاد مقاصد پر توجہ مرکوز رکھ سکتی ہے۔بہرحال چین میں میرٹ کی حکمرانی کو اپنانے کا عمل ابھی آغاز ہی میں ہے۔ اسے لبرل جمہوریت کے اصولوں اور کئی کمیونسٹ نظریات کو باہم ملا کر آزمایا جا رہا ہے۔بعض پہلو ایسے ہیں جن پر مزید غور و فکر کیا جانا چاہیے اور بہتر بنایا جانا چاہیے۔ میرٹ کی حکمرانی کا متوازن تصور لیتے ہوئے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ جمہوریت کے مقابلے میں چھوٹی مداخلتوں کے باعث یہ پٹڑی سے اتر سکتی ہے۔چوں کہ چین میں ایک پارٹی کی حکمرانی کا نظام ہے اس لیے نگرانی و توازن کا واضح فقدان ہے۔ پارٹی جو فیصلہ کرتی ہے پارٹی ہی اس پر عمل درآمد کرتی ہے۔ حزبِ اختلاف کا کوئی نظام نہیں ہے۔ نہ تنقید نہ ہی حکومتی مشینری کی خامیوں کی نشان دہی کرنے کا کوئی عمل۔ سادہ منظر نامے میں اگر پالیسی سازی کے حوالے سے اعلیٰ ترین درجے کے راہنما غلط راستے پر ہوں تو پالیسی سے اختلاف کرنے والی کوئی آواز نہیں ہو گی۔ کسی بھی نظامِ حکومت کے کا میاب ہونے کے لیے اس کے کاموں پر رائے اور تجاویز دینے کا میکانزم ہونا چاہیے جو اس امر پر نگاہ رکھے کہ سب سے بالائی منصب پر فائز فرد جہاز کو طوفانی پانیوں میں تو نہیں لے جا رہا۔ اگر ’’چائنا ماڈل‘‘ نے نشو و نما پانا ہے تو ان خامیوں سے بچنا ہو گا۔ اب تک تو چین ناقابلِ فہم حد تک وسعت اور ترقی کر رہا ہے۔ سیاسی جائزوں سے بھی واضح عیاں ہوتا ہے کہ چینی عوام ’’مقبول افراد کو چننے‘‘ کی بجائے ’’لائق افراد کو ترقی‘‘ دینے پر یقین رکھتے ہیں۔
بہرحال یہ دیکھنا باقی ہے کہ میرٹ کی حکمرانی کے نظام کے تحت قائم ہونے والی حکومتیں مستقل ہیں یا نہیں، تاہم تیسری دنیا کے ترقی کے اشاریوں سے عیاں ہے کہ بہت سے ملکوں کے لیے جمہوریت بہترین آپشن نہیں ہے۔ مشرقِ وسطیٰ، ایشیا اور افریقا کے ملکوں میں بد عنوانی عام ہو چکی ہے۔ جمہوری ادارے ایسے راہنماؤں کا تقرر کر رہے ہیں، جو غریب عوام کو مصائب سے نجات دلانے کے لیے ضروری خصوصیات کے بالکل الٹ خصوصیات کے حامل ہیں۔ مغربی ملکوں کے سوا بہت سی جمہوریتیں حکمرانی کا ایسا کارگر نظام مہیا کرنے میں ناکام ہو چکی ہیںجو ریاست کے ستونوں کو مستحکم کر سکے۔ بعض مثالیں تو ایسی بھی ہیں کہ فوجی جرنیل اقتدار کی بارہ دریوں میںگھس گئے جب کہ بھارت جیسی بڑی جمہوریتوں تک میں نریندر مودی جیسے مبینہ طور پر مجرمانہ ریکارڈ کے حامل نمائندوں کو منتخب کروانے کے لیے انتخابی نظام کو بار بار غلط استعمال کیا گیا۔ ایک چینی تجزیہ کار نے کہا تھا، ’’صرف مقبول جمہوریت کے ذریعے جارج ڈبلیو بش اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے کمزور افراد دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے صدر بن سکتے ہیں۔‘‘ پاکستان کے تناظر میں ایک کمزور جمہوریت کی غم ناک کہانی سامنے آتی ہے۔ کئی عشروں کے بعد مختلف سیاسی طبقوں کے مقبول راہنماؤں پر بد عنوانی، خلافِ ضابطہ اقدامات اور نااہلی کے الزامات عائد کر دیے گئے ہیں۔ ریاستی ادارے انتشار کے شکار ہیں اور تصادم و داخلی مناقشت کی بادِ سموم چل رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستان چینی حکومت کے ساتھ 60 ارب ڈالر کا معاہدہ کر رہا ہے۔ یہ انتظام صرف اس وقت ثمر آور ہو سکتا ہے جب پاکستانی بھی اپنے رفقائے کار چینیوں کی طرح اخلاصِ عمل، دیانت داری اور اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ سی پیک نا صرف معاشی اور سماجی تناظر میں نہایت اہم امکانات رکھتا ہے بلکہ حکمرانی میں میرٹ کا شفاف نظام رائج ہونے سے اعلیٰ ترین کارکردگی دکھانے کے امکان کا بھی حامل ہے۔
(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے سربراہ ہیں۔)