کسی بھی معاشرے کو تہذیب یافتہ بنانے کیلئے کچھ طے شدہ اصول و ضوابط پر عمل یقینی بنانا پڑتا ہے یہ اصول و ضوابط آئین کی شکل ہی تسلیم شدہ ہوں‘ قوانین کے روپ میں ہوں مذہب ان کا پابند بناتا ہو، یا سنہری معاشرتی روایات ہوں، انسانیت کے نام پر ان کی شہرت ہو یا بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے متعارف ہوں انہیں اجتماعی فلاح کے نام پر تسلیم کرنا پڑے یا اخلاقی حوالے سے ذاتی ذمہ داری بنتی ہو کہیں نہ کہیں انسانی خواہشات جو اکثر ان اصول و ضوابط کو نظرانداز کرنے کی شکل میں حیوانی خواہشات بن جاتی ہیں‘ سے از خود بچنے یا قانون یا معاشرتی دبائو کے تحت بچنے اور بچانے کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ آج کل پاکستان میں آئین کی حفاظت اس کی پاسداری کی باتیں بڑے زور و شور سے ہو رہی ہیں۔ یہ باتیں کرنے والے خود آئین شکنی کے کتنی بار مرتکب ہوئے یا احترامِ آئین میں انکا ماضی اور حال کس حد تک داغدار ہے اس سے مجھے غرض نہیں اور نہ ہی اس پر طعنہ زنی سے کوئی مسئلہ حل ہو سکتا ہے بلکہ اکثر طعنہ زنی اصل مسئلہ سے توجہ ہٹانے اور اس کی اہمیت کو کم کرنے کا موجب بن جاتی ہے۔
میں تو یہ سوچ رہا تھا اور واقعتاً سوچنے کی بات کرتے ہوئے مجھے ایسی بجلی کا جھٹکا لگا کہ پورے جسم کے ساتھ روح بھی کانپ اٹھی کہ سوچنے اور غور کرنے کا جتنا زور ہمارے رب نے اپنے ماننے والوں پر دیا ہے ۔ اس سے اتنا ہی دور ہو چکے ہیں۔ دوسرا زور اس نے شکر کرنے پر دیا ہے اور شکر کرنے کے حوالے سے بھی ہمارا رویہ مایوس کن ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ اپنے قرآن میں بڑی حیرت سے استفسار کرتا ہے ’’افلایشکرون‘‘ یہ شکر کیوں نہیں کرتے اور کہتا ہے ’’ مجھے کیا پڑی ہے کہ میں تمہیں عذاب کروں اگر تم شکر کرو اور ایمان والے پر، جس شخص کے شکر اور ایمان میں کچھ کمی نہیں تو اسے عذاب نہ کرنے کا وعدہ خود پروردگار نے کیا اگر ہم اس بات پر سوچ کو’’اوور ہال‘‘ کر لیں اور جب کوئی انفرادی یا اجتماعی مصیبت آئے یا بربادی مقدر بنے تو سوچ لیں کہ شکر میں کمی آئی ہے یا ایمان کمزور ہوا ہے شکر کے اس انداز کو بھی ناقص قرار دیا گیا ہے جو ایک شاعر نے پورے تفہیم کے انداز میں واضح کردیا ہے : …؎
جب کھینچ کے آہ سرد
کہتا ہے کوئی بندہ
جس حال میں بھی رکھے
اور شکر ہے اللہ کا
میں سوچنے لگتا ہوں
یہ شکر کیا اس نے
یا طعنہ دیا اس نے
رزاق دو عالم کو
تو بات اس سوچ سے شروع ہوئی جس پر ایسی بجلی کا جھٹکا لگا جو معروف معنوں میں لوڈشیڈنگ سے متعارف ہی نہیں، سوچ یہ تھی کہ اگر آئین پاکستان کی کل 280دفعات میں سے صرف ایک دفعہ کی ذیلی شق پر عمل کر لیا جائے یا کروا لیا جائے تو پاکستان کے نوے سے اٹھانوے فیصد تک مسائل حل ہو جائیں گے۔ میں نے یہ ہدف پورا سوچ سمجھ کر باندھا ہے اور معروف امریکی سکالر بوسکاگلیو کی اس آزمودہ تھیوری کو عمل کی بھٹی سے گزار کر بات کرنے کی ہمت کی ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ انسانوں کے اسی فیصد مسائل جو ان کو بہت پریشان کرتے ہیں اور خود کشی تک بھی لے جاتے ہیں وہ محض نظر اندز کرنے انہیں کچھ وقت دینے یا ان پر خاموش رہنے اور صبر کرنے سے از خود حل ہو جاتے ہیں۔
بوسکاگلیو کا تمام انسانوں کو کھلا چیلنج ہے کہ ماضی بعید میں جو مسئلے ان کے لئے بہت اہم تھے آج ان پر غور کریں‘ ان میں سے آدھے تو انسان ایسے ہی بھول چکا ہوگا اور باقی کو اس وقت اہم سمجھنے پر اسے بے ساختہ ہنسی بھی آتی ہو گی جس بات پر فساد برپا ہوا وہ انتہائی غیر اہم تھی وغیرہ وغیرہ۔ اب میں نے آئین کی جس دفعہ کی ذیلی شق کی بات کی ہے اس پر بھی پوری طرح نہیں بلکہ جزوی طور پر عمل کرنے سے ہی ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس دفعہ آئین کا حصہ بننے پر اس پر عمل درآمد نہ کرنے کا کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ بعد اس پر عمل درآمد کرانے کیلئے سپریم کورٹ نے بھی از خود نوٹس نہیں لیا ہے۔آئین کی دفعہ 2کی ذیلی دفعہ 2الف کے جس جزوی حصہ پر عمل درآمد ہمارے مسائل و مصائب کو حل کرنے کا موجب بن سکتا ہے اس کی روح کو سمجھنے کیلئے کسی بقراط یا سقراط کی ضرورت نہیں بلکہ جب آئین کا یہ حصہ دو چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا وہ ایک مقدس امانت ہے‘‘ اب اس کی روح کے مطابق اقتدار و اختیار نہ صرف مقدس امانت ہے بلکہ اس کے استعمال میں اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر استعمال کرنے کی شرط ہے۔ جس طرح روزہ میں ہر حلال چیز کھانے کی بھی ممانعت ہو جاتی ہے اور ایک مقررہ وقت کے اندر انسان کی بھوک پیاس یا دوسری ضروریات کو جواز بنا کر کھانے پینے کی ممانعت کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح اس مقدس امانت کے استعمال میں کمی بیشی یا کوتاہی یا ذاتی پسند و ناپسند ملانے سے امانت میں خیانت کا تصور ابھرے گا اور ایسا کرنا آئین شکنی ہو گا اس دفعہ کو بہت تفصیل سے دیکھنے یا پڑھنے کی بجائے میں اسکے ایک دوسرے مختصر سے حصہ کو پیش کرکے اہل وطن کی سمجھ بوجھ پر چھوڑ دیتا ہوں کہ بھلا اس پر عملدرآمد کرنے کے بعد کونسا مسئلہ باقی رہے گا۔
’’جس کی رو سے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں کو جس طرح اسلام نے ان کی پوری تشریح کی ہے پورے طور پر ملحوظ خاطر رکھا جائیگا‘ جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق جس طرح کہ قرآن پاک و سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے ترتیب دے سکیں‘‘۔
میں پورے آئین کی 280دفعات کی بجائے اس دفعہ پر جزوی عمل کو یقینی بنانے کی استدعا کرونگا کیونکہ اسی کیلئے پاکستان بنایا گیا تھا اور یہی اللہ کا وعدہ تھا جو اسلامیان ہند نے قائداعظم کی قیادت میں الگ وطن حاصل کرتے وقت کیا تھا اس سے انحراف کی سزا پوری قوم بھگت چکی ہے،بھگت رہی ہے اور بھگتتی رہے گی اگر اس وعدہ خلافی کو وعدہ ایفائی میں آئین پاکستان پر عمل کرنے کی صورت میں بدلا نہ گیا تو اس کے علاوہ کی جانے والی ساری کوششیں‘ بدنیتی‘ سیاسی چالبازی، دھوکہ دہی اور فریب کاری کی ذیل میں ہی آئیں گی اور دلوں کے بھید جاننے والا رب ایسے لوگوں کی چالبازیوں سے مرتب کئے جانے والے نتائج کو ان کی فلاح و بہبود کا ذریعہ نہیں بننے دے گا۔ (نعوذباللہ) اسے دھوکہ دینے والے خود کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں اور جرم عظیم کے مرتکب بھی ہو رہے ہیں۔
سارے مسئلوں کا مکمل اورمؤثر حل
Apr 18, 2018