کوئٹہ (نمائندہ نوائے وقت) بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس کامران ملاخیل نے ریمارکس دئیے ہیں کہ صوبے میں ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز کا وجود نہیں لیکن ان کے نا م پر فنڈز لئے جارہے ہیں، اگر الیکشن کمشن نے بھرتیوں پر پابندی آئین کے مطابق لگائی ہے تو ہم انکے ساتھ ہیں ورنہ ہم حکومت کے ساتھ ہیں، بلوچستان ہائیکورٹ میں الیکشن کمشن کی جانب سے سرکاری ملازمتوں پر عائد پابندی کے خلاف کیس کی سماعت جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس کامران ملاخیل پر مشتمل بینچ نے کی، درخواست گزار وزیر داخلہ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کے وکیل کامران مرتضیٰ ایڈوکیٹ، ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان رئوف عطاء ایڈوکیٹ ڈپٹی اٹارنی جنرل اور صوبائی الیکشن کمیشن کے لا آفیسر عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے الیکشن کمشن کو جواب دینے کی مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت 19 اپریل تک ملتوی کر دی۔ علاوہ ازیں بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی اور جسٹس ہاشم کاکڑ پر مشتمل پنچ نے پولیس افسران کی ترقیوں کے کیس میں ریمارکس دئیے ہیں کہ وفاق بتا دے کہ انہوں نے افسران کو ترقی دینی ہے یا نہیں، اگر وفاق ترقی نہیں دے سکتا تو ہم دیں گے ترقی کے منتظر افسران شہید ہوگئے۔ منگل کو بلوچستان ہائیکورٹ میں پولیس افسران کی ترقیوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کیوں صوبے کے افسران کو ترقی نہیں دے رہی، ترقی کے انتظار میں حامد شکیل شہید ہوگیاچیف جسٹس نے ریما رکس دئیے کہ کیوں نہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کوطلب کرلیا جائے؟ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک بار موقع دیا جائے۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ ہمارے صوبے کے افسران 20 سال سے ایس پی اور ڈی ایس پی کے گریڈ میں رکے ہوئے ہیں، اگر افسران کو ترقی نہیں دینی تو جواب دیا جائے۔