اس وقت ملک جن حالات سے گزر رہا ہے۔ ان میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ عام آدمی کو بیرونی قرضوں، سٹاک مارکیٹ کے اتار چڑھائو، سالانہ شرح نمو اور اس قسم کی دیگر معاشی معلومات سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ ایک ڈیڑھ مرلے کے ڈربے میں جسے گھر کا درجہ دیا جاتا ہے دو یا تین خاندان رہتے ہوں۔ ان کے معیار زندگی کا اندازہ ملکی شرح نمو یا انڈیکس سے نہیں لگایا جا سکتا ۔ نہ ان لوگوں کو معاشی میزانیئے سے دلچسپی ہوتی ہے۔ ان کا سارا معاشی میزانیہ 2+2 مساوی 4 روٹی اورآدھ کلو ابلے ہوئے آلو یا ٹماٹر پیاز ہی ہوتا ہے۔ اگر آپ ان کے سامنے پاکستان کی سالانہ شرح نمو۔ قرضوں کی ادائیگی اور خسارے کی بھاری بھرکم داستان لے کر بیٹھ بھی جائیں تو انہیں خاک بھی سمجھ نہیں آئے گا۔ الٹا وہ آپ سے بجلی ، گیس اور پانی کے بلوں میں بے تحاشہ اضافہ۔ آٹا ، دال ، چاول ، گھی ، چینی اور سبزی کی قیمتوں میں آئے روز ہونے والے اضافہ کی وجہ سے درپیش پریشانیوں کے حل کا سوال کرے گا۔ عام آدمی نہ تو اے سی مانگتا ہے نہ اے سی والا بنگلہ یا گاڑی۔ اسے صرف دو وقت کی روٹی بیوی، بچوں کے پہنے کے کپڑے ، جوتے اور صحت و تعلیم کی فراہمی سے دلچسپی ہوتی ہے۔ اس وقت بدقسمتی سے ہماری 60 فیصد آبادی اس بدنما خط سے نیچے پہنچ چکی ہے جسے خطِ غربت کہتے ہیں۔ وجہ وہی معاشی عدم توازن،سماجی عدم مساوات اور دولت کی تقسیم کا غیر منصفانہ نظام۔ ہر آنے والی حکومت ان سب کے خاتمے کا اعلان کرتے کرتے خود ختم ہوجاتی ہے مگر یہ عدم مساوات کا فلسفہ پوری آب و تاب کے ساتھ سوالیہ نشان بنا ہمارے سامنے کھڑا رہتا ہے۔ حکمران طبقہ اپنے اللے تللے ختم کرنے کی بجائے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ انہی غریبوں کو قربانی دینے پر آمادہ کرتا نظر آتا ہے، جو پہلے ہی 72 برسوں سے قربانیاں دیتے دیتے موت کی دہلیز تک پہنچ چکے ہیں۔ اب پاکستان میں صرف دو طبقے موجود رہ گئے ہیں ایک اشرافیہ یعنی امیروں کا طبقہ دوسرا غربا یعنی غریب لوگوں کا۔ وہ طبقہ جو کسی بھی ملک کی ترقی اور عظمت کا نشان کہلاتا ہے۔ جسے عرف عام میں سفید پوش یا درمیانہ طبقہ کہاجاتا ہے اسے نہایت بے دردی سے ختم کر دیا گیا ہے۔ اب امیر اور غریب جو آمنے سامنے ہیں باقی رہ گئے ہیں ان دونوں طبقوں کے درمیان ڈھال بنا سفید پوش طبقہ جو ان کے درمیان ہونے والے تصادم کو روکتا ہے اب نہیں رہا۔ ان حالات میں ملک کی سماجی اور معاشی حالت جس طرف جا رہی ہے وہ صرف اور صرف ان دو طبقوں کے درمیان ایک خونی تصادم کی راہ ہے۔ جب ایک طرف چھیننے والے اور دوسری طرف جن سے چھینا گیا ہو رہ جائیں تو پھر انقلاب کی راہ کو روکنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب ایسی نوبت آتی ہے تو پھر روس، چین ، فرانس اور ایران جیسے انقلابات جنم لیتے ہیں ، جن میں اشرافیہ کو دھول چٹانے والے یہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگ ہوتے ہیں۔
ہم جو دن رات کلام اقبال پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں، وہ شاید بھول جاتے ہیں کہ اقبال نے سب سے زیادہ زور ؎
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے درو و دیوار ہلا دو
پر ہی دیا ہے۔ وہ تو …اس سے بھی کہیں زیادہ آگے بڑھ کر …؎
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کوجلا دو
کا نعرہ مستانہ بھی لگاتا نظر آتا ہے۔ اقبال تو ہر اس نظام کی بیخ کنی کا درس دیتا ہے جو غریب کو راضی بہ رضا رکھنے کا درس دیتا ہے جو سر جھکا کر بادشاہان و کجکلاہان کے احکامات و فرمودات قبول کرنے کا سبق سکھاتا ہے۔اقبال تو اس محکمومیت اور مسکینت کا سخت مخالف ہے۔ وہ تو کھل کر انقلاب کا نقیب ہے جو اشرافیہ کو آسمان سے اٹھا کر زمین پر پٹخنے کا داعی ہے۔ قرآن مجید میں بھی محکوم طبقات کو ان کے حقوق کی فراہمی کا حکم دیتا ہے۔ تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پھیلے ہوئے ہاتھ اشرافیہ کے گریبان نوچ ڈالیں۔ روایت بھی یہی اسی ہے کہ انقلاب نچلے طبقات میں جنم لیتا ہے۔ سو اب ملک کے معاشی حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ غربت کے مہیب سیاہ سائے ملک پر تیزی سے چھا رہے ہیں۔ غربت کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔امیر امیرتر اور غریب غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ خطرہ ہے کہیں یہ معاشی اونچ نیچ طبقاتی کشمکش کسی لاوے کی طرح پھٹ کر بہہ نہ نکلے۔ جب 80 فیصد لوگ 20 فیصد لوگوں کو عیش و مستی میں گم آسودہ زندگی بسر کرتا دیکھیں گے تو پھر ان کی طرف سے اٹھنے والا ردعمل براہ راست متمول طبقے کی تباہی کی طرف ہی جائے گا۔ آج جو کمزور طبقے کے نوجوان اسلحہ سے کھیل رہے ہیں، ڈکیتی چوری پر اتر آئے ہیں ، اسی اسلحہ کی مدد سے اگر منظم ہو کر اشرافیہ کے محلات اور بستیوں پر ٹوٹ پڑے تو پھر بڑی سے بڑی طاقت بھی ان آسودہ حال آبادیوں کو بچا نہیں پائے گی۔ کیونکہ غریبوں کے پاس گنوانے کے لیے صرف ایک جان ہوتی ہے جبکہ اشرافیہ کو جان کے ساتھ ساتھ مال و زر کے انبار اور جائیدادوں کو بھی بچانے کا انتظام کرنا ہو گا جو ظاہر ہے ممکن نہیں رہے گا۔ اس کی منظر کشی قرآن مجید میں سورہ التکاثر میں یوں کی ہے۔
’’کھا گئی تمہیں کثرت سے جمع کرنے کی خواہش حتیٰ کے تم قبروں میں جا پہنچے‘‘…
اب چاہے خود پہنچیں یا پہنچا دئیے جائیں بہتر ہے یہ وقت آنے سے پہلے ہی اصلاح کر لی جائے تو بہتر ہے۔