سرگودھا کے ہارون الرشید تبسم اور صوفی تبسم

سرگودھا میں ڈاکٹر پروفیسر ہارون الرشید تبسم ایک بہت سرگرم اور مخلص انسان ہیں۔ وہ پوری ایک اکیڈمی کی طرح ہیں۔ میں نے پہلے بھی کسی کالم میں لکھا تھا کہ معروف دانشور شاعر ادیب ڈاکٹر وزیر آغا کی وجہ سے عہد آفریں اور محبت کے پہاڑ جیسے انسان احمد ندیم قاسمی کی مخالفت میں ایک ادبی فرقہ سا بنا تھا۔ اب ہارون الرشید تبسم کی وجہ سے سرگودھا کی نمائندگی ہو رہی ہے۔
سرگودھا ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی وجہ سے معروف ہو رہا ہے۔ یہ آدمی بے پناہ صلاحیتیں رکھتاہے۔ اس کی اتنی کتابیں شائع ہو چکی ہیں کہ اُس کو خود ان کے نام یاد نہیں ہونگے۔ میرے ساتھ ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کا رابطہ ہے۔ وہ محبت کرنے والا اور رشتوں دوستیوں کو نبھالنے والا آدمی ہے۔
اُس سے ایک گزارش ہے کہ وہ اپنا پورا نام لکھا کرے۔ صرف تبسم لکھنا مناسب نہیں۔ اس طرح محبوب شاعر صوفی غلام مصطفی تبسم یاد آ جاتا ہے۔ عمر کے آخری دنوں میں اُن سے چند ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ وہ ناقابل فراموش شخصیت تھے۔ اُن کی پوتی پروفیسر ڈاکٹر فوزیہ تبسم بہت اچھی شاعرہ ہیں۔ وہ اپنے گھر پر ادبی محفلیں سجاتی رہتی ہیں۔ وہاں بڑے بڑے ادبی لوگ شریک ہوتے ہیں۔ مجھے بھی موقعہ ملا ہے۔ مرحوم و معروف شاعر شہزاد احمد بھی یہاں آتے تھے۔ فوزیہ تبسم نے اپنے عظیم دادا کا نام زندہ رکھا ہوا ہے ۔میں نے اس سے کہا کہ وہ اپنا نام فوزیہ صوفی تبسم لکھا کرے
جب میری کہانی میں وہ نام نہیں ہوتا
آغاز تو ہوتا ہے انجام نہیں ہوتا
کیا فکر مضامیں کی اس دورکے شاعر کو
ابہام تو ہوتا ہے الہام نہیں ہوتا
ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کا ذکر میں نے کیا کہ ابھی سرگودھا سے ان کی دو کتابیں موصول ہوئی ہیں۔ جن میں سے ایک کتاب کا نام مجھے پسند آیا ہے۔ ’’قطب مینار سے مینار پاکستان تک‘‘ اس کتاب کا انتساب دیکھیں۔ کچھ ’’لفظوں کی ترتیب سے شاعری بنتی ہے لیکن کچھ چہرے غزل کی مانند ہوتے ہیں‘‘ اس کتاب کا خوبصورت اور بامعنی نام سرگودھا کی ہی ایک شاعرہ نجمہ منصور نے تجویز کیا ہے۔ ایک اور جملہ دیکھیں۔ ’’خواب فوت ہو جاتے ہیں ، چلیں پروفیسر ہارون الرشید تبسم کا ایک اور جملہ بھی دیکھ لیں۔’’انسان غاروں سے نکلا لیکن خالق کائنات کی تلاش کرتے کرتے غار حرا تک پہنچ گیا۔‘‘
یہ کتاب ایسے زبردست کالموں کے انتخاب کا مجموعہ ہے مگر مجھے یہ معلوم نہیں کہ ہارون الرشید تبسم کس اخبار میں کالم لکھتے ہیں۔ اب اخبارات کے علاوہ بھی کالم لکھے جا رہے ہیں۔ اب عہد حاضر کی سب سے بڑی ادبی صنفِ سخن کالم ہے، مجھے اپنا یہ جملہ بار بار یاد آتا ہے۔ ’’کالم نگاری سالم نگاری ہے،
بہت پرانی بات ہے کہ اکیڈمی آف لیٹرز اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے کل پاکستان رائٹرز کانفرنس ہوئی تھی۔ بڑی رونق لگی تھی۔ پورے پاکستان سے لکھنے والے اور لکھنے والیاں آئی تھیں۔ ملاقات ہوئی تھی ورنہ اتنے لوگوں سے رابطہ ممکن ہی نہیں ہے۔
اب نیشنل بُک فائونڈیشن کی طرف سے کل پاکستان رائٹرز کانفرنس کی طرح کا کوئی شاندار اجتماع ہو رہا ہے۔ چیئرمین ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے اس ادارے کے لیے بڑی محنت کی ہے۔ سفیران ادب کا ایک سلسلہ بھی شروع کیا ہے ۔ مجھے بھی یہ اعزاز بخشا گیا ہے۔ سفارت کاری کایہ ایک انوکھا سلسلہ ہے جو بہت قابل تحسین کارکردگی ہے۔
سرگودھا سے ’’بُک لورز نیوزلیٹر‘‘ بھی شائع کیا جاتا ہے جس میں تحریر تو صرف ایک ہے جو ہارون الرشید تبسم کے حوالے سے ہے۔ تصویریں بہت ہیں۔ معروف کالم نگار حامد میر ، عرفان صدیقی، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، ڈاکٹر رفیق احمد، ڈاکٹر ایوب صابر بھی پروفیسرہارون الرشید تبسم کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...