کوئی ویرانی سی ویرانی ہے۔گھر دشت اور دشت پناہ گاہ بن گئے۔شاہراہیں ویران،مخلوق خداپریشان ۔گلیاں ایسی سونی کہ مرزا یار بھی نہ پھر سکے۔شہر شہر ایک دوسرے سے اورشادآبادشہر بھی ٹکڑیوں میں بٹ گئے۔ہرکوئی منہ چھپاتاپھرتا ہے۔ مصافحے اور معانقے مصیبت ہوگئے۔عام تودور کی بات خاص بھی مشکوک ہوگئے۔وہ جن کی بغلگیری کے بغیر چین نہ آتا تھا،ان سے دوری زندگی کی ضامن قرارپائی ۔ سناٹے نے بھی نقب لگالی۔مل بیٹھنے کے بہانے بھی ختم ہوگئے ۔ مجلس اور محفل آرائیاں کہیں دور نکل گئیں۔یہ اس وباء کا اثر ہے جو پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں پھیل گئی ۔چین جس کا منبع تھا اور جس نے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اسے شکست دی۔باقی ساری دنیا میں لوگ خوف زدہ اور سہمے ہوئے گھروں میں بند ہیں فی الحال اس وباء کا یہی حل تلاش کیاگیا ہے ۔
بہت زیادہ وقت گھر میں گذرتا ہے۔البتہ پیشہ ء وکالت کے تقاضے عدالتوں میں کھینچ لاتے ہیں ۔ایک باعث اطمینان واقعہ یہ ہوا کہ جب میں اپنے نئے گھر منتقل ہو ا تو سامان لاتے لاتے TVکی باری سب سے آخر میں آئی ۔سوچا کہ اگلے روز لیتا چلوں گا مگر سستی اور کاہلی جو آڑے آئی تو نیا گھر TVسے ابھی تک محروم رہا۔ایک دودن بعد احساس ہوا کہ گھر میں مکمل سکون ہے کوئی شور غل نہیں،چیختے چنگاڑتے جبل الجہالت جنہیں"اینکرر"کہاجاتا ہے کسی ٹوٹ بٹوٹ کی شکل نظر نہ آئی تو TVکی عدم موجودگی سے بڑی طمانیت کااحساس ہوا۔احد سلیمان سوشل میڈیا سے لطف اندوز بھی ہوتا ہے اور آن لائن پڑھائی بھی جاری ہے۔آج تک گھر کے کسی فردنے TVکی عدم موجودگی کی نشاندہی تک نہیں کی ۔کرونا،کرونا کے اس شوروغل میں جو اب برقی میڈیا کی تجارت کا نیا ذریعہ بن چکا ہے ان سب سے بچائو کیلئے محرب وآموز ہ نسخہ بیان کرتا ہوں۔اللہ سے مددمانگو حفاظتی تدابیر اختیار کرو اور TV کوکسی کونے کھدرے میں رکھ دو۔دوسرے شہروں کا تو مجھے علم نہیں البتہ گوجرانوالہ میں معاملات بہت حد تک اطمینان بخش ہیں۔چھوٹی موٹی کوتاہیاں تو ہر جگہ ہوتی ہیں جن سے اب امریکہ ویورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک بھی محفوظ نہیں ۔یہ کالم لکھ رہا تھا تو پنجاب یونیورسٹی لا ء کالج ہاسٹل کے پرانے ساتھی جسٹس (ر) امجد اقبال قریشی کاراولپنڈی سے فون آگیا۔حال احوال دریافت کئے۔ہمارے پرانے ساتھیوں کے حال احوال کامطلب ہاسٹل کے پرانے درودیوار ،اس کے سبزہ زاراور دوستوں کی موج وبہار کے علاوہ کچھ دیگر کلاس فیلوز کا ہوتا ہے جن میں سے کئی عدم آبادکو سدھار گئے ،کچھ دیار غیر میں بس گئے اور باقی اپنے اپنے شہروں میں وکالت یادیگرکاموں میں مصروف ہوگئے ۔ جسٹس صاحب نے تقریبا آدھا گھنٹہ بات کی۔دنیا بھر کے موضوعات پر بات کرنا توکجا،کرونا پربڑی کم گفتگو کی۔کہنے لگے کہ تنہائیوں کاعلاج ایک یہ بھی ہے کہ اپنے پرانے دوستوں سے کھل کر طویل گفتگو کی جائے۔موبائل فون کمپنیوں کے پیکج سے فائدہ اٹھایا جائے۔مجھے یہ بات دل کو لگی تو 1977سے بچھڑے ہوئے دوست خلیل الرحمان بھشم ایڈووکیٹ کوچونیاں فون کیا۔آواز سن کر ہی بڑی خوشی ہوئی۔خوشاب سے حبیب نواز ٹوانہ ایڈووکیٹ کافون تو آتا رہتا ہے ۔ حبیب نواز بڑے دلنواز آدمی ہیںبڑی پیاری گفتگو کرتے ہیں۔خلوص محبت اورپیار کا کشتہ کہیں تو بہتر ہوگا۔ ممبر پاکستان بارکونسل احسن بھون ایڈووکیٹ بھی اس مشکل گھڑی میں احباب کو فون کرتے رہتے ہیں ۔ سیالکوٹ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنما اور بار کے سابق صدر خواجہ اویس مشتاق ایڈووکیٹ بھی فون پر تبادلہ خیال کرتے رہتے ہیں۔فوجداری قانون کے بڑے وکیل ہیں،گاہے گوجرانوالہ بھی آتے رہتے مگر اب شہروں کے درمیان رکاوٹوں نے راستہ روک لیا۔ TVسے دوری کے علاوہ ایک اور خیال بھی میرے ذہن میں ہے کہ گھر میں رہتے ہوئے روزمرہ کے چھوٹے موٹے کام خودکئے جائیں باالکل امریکی طرز معاشرت کی طرح ۔یعنی جو آدمی جس پلیٹ میں کھانا کھائے اسے خودہی دھوئے۔ فوجی طرز پر صبح اٹھ کر اپنا بستر خود درست کرے ،اگر کھانا پکانا آتا ہوتو اس سے زیادہ بہترین مشغلہ شائد ہی کوئی ہو۔