درسِ آگہی 

حضرت خواجہء بزرگ معین الدین اجمیری ارشاد فرماتے ہیں : ٭عارف ہر وقت ولولہء عشق میں ہوتا ہے اور پروردگار کی قدرت اوراس کی آفریش پر غور وفکر کرتا ہے اورمتحیر رہتا ہے۔ اگر کھڑا ہے تو بھی خیال یار میں ہے ،بیٹھتا ہے تو بھی دوست کے ذکر میں مشغول ہے۔ اگر سویا ہے تو بھی عالم خواب میں جلوہ دوست میں ہے اور اگر جاگتا تو دوست کی عظمت کے حجاب کے گرد محو طواف ہوتا ہے۔ ٭ اہل عشق صبح کی نماز ادا کر کے جائے نماز پر سورج نکلنے تک قیام پذیر رہتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے دوست کی نظر میں مقبول ہوجائیں اوردم بدم تجلیات الہٰی سے مستفیض ہوں۔٭جب ایسا شخص صبح کی نماز ادا کرکے جائے نماز پر قیام پذیر ہوتا ہے تو فرشتے کو حکم ملتا ہے کہ وہ آکر اس کے پاس کھڑا ہوجائے اوراس کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ سے مغفرت و بخشش طلب کرے کہ وہ مطمئن ہوکر وہاں سے اٹھے۔ ٭نماز ایک امانت ہے جو پروردگار کی طرف سے بندوں کے سپر د کی گئی ہے۔ پس بندوں پر واجب ہے کہ وہ اس امانت کو اس طرح محفوظ رکھیں اوراس کا حق اس طرح بجالائیں کہ اس میں کوئی خیانت ظاہر نہ ہو۔ ٭جب کوئی شخص نماز اداکرے توچاہیے کہ رکوع وسجود کماحقہ،بجالائے جیسا کہ حکم ہے اورارکان نماز کو اچھی طرح ملحوظ رکھے۔٭میںنے صلوٰۃ مسعودی میں لکھا دیکھا ہے کہ جب لوگ نماز اچھی طرح اداکرتے ہیں اوراس کے تمام حقوق بجالاتے ہیں ، رکوع سجود ،قرآت اورتسبیح کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں توفرشتے اس نماز کو آسمان پر لے جاتے ہیں۔ اس نماز سے ایک نور شائع ہوتا ہے اورآسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ پھر وہ نماز عرش کے نیچے لائی جاتی ہے توحکم ہوتا ہے کہ سجدہ کر اور نماز اداکرنے والے کے لیے بخشش مانگ کہ اس نے تیرے حق کو ملحوظ رکھا ہے(جامع الملفوظ لکھتے ہیں ) پھر خواجہ صاحب روپڑے اورفرمایا :’’یہ تو اچھی نماز اداکرنے والوں کے حق میں ہے۔لیکن جو لوگ نماز کا حق بجانہیں لاتے اور ارکان نماز کو بخوبی ملحوظ نہیں رکھتے (ان کاحال یہ ہوتا ہے کہ )جب فرشتے ان کی نماز کو آسمان پر لے جانا چاہتے ہیں توآسمان کے دروازے نہیں کھلتے ،حکم ہوتا ہے کہ اس نماز کو لے جاکر اسی نماز ی کے منہ پر دے مارو‘‘۔پھر نماز زبان حال سے کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ضائع کرے جس طرح تو نے مجھے ضائع کیا ۔(دلیل العارفین)

ای پیپر دی نیشن