حکومت عسکری قیادت یکجان!

پاکستان سمیت کرہ ارض کے قریباً قریباً سبھی ممالک کرونا وائرس کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ انسانی زندگیوں سے کھیلنے والی اس عالمی وباء کو کب اللہ تعالیٰ کی طرف سے واپسی کا بلاوا آئے گا، یہ تو خود خدائے بزرگ و برتر کی ذات ہی بہتر جانتی ہے مگر جب سے عوامی جمہوریہ چین کے شہر ووہان سے یہ مہلک وباء پھوٹ کر دنیا بھر میں تیزی کے ساتھ پھیلی ہے، اس نے ایک لاکھ سے ز ائد انسانوںکو ہمیشہ کی نیند سلا دیا ہے مگر اس وباء کی تباہ کاریوں کی عبرتناک داستانوں میں متمول ترین سمیت متوسط اور ترقی پذیر ممالک میں روزانہ اٹھنے والے جنازوں کے واقعات سے عوام پر لرزہ طاری کرنے کا موجب بن رہے ہیں وہاں اس حقیقت سے بھی اغماض ممکن نہیں کہ خدائے’’روشن جبِیں باباؔ جعفری ؒکی یادیں!‘‘
وحدہ لا شریک کے فضل و کرم اور وجہ تخلیق کائنات، سید المرسلین، سرور کائنات، امام الانبیاء اور رحمت اللہ اللعالمین حضرت محمدمصطفیؐکی لطف و عنایت سے بھرپور نظر کرم ہے کہ پاکستان کی امہ میں اس عالمی وباء کی ہولناک کارروائیوں کا دائرہ کرہ ارض کے دیگر تمام ممالک میں ہونیوالی روح فرسا کارروائیوں کے مقابلے میں انتہائی محدود ہے، بلاشبہ اس حوالے سے پاکستان کی برسر اقتدار قیادت، اس کے اعضاء جوارح اور ملک کے عوام نے باہمی تعاون سے اس وباء کو محدود رکھنے میں جو رویہ اختیار کر رکھا ہے، اس کا ذکر آنا بھی بے محل نہ ہوگا۔
کرونا وائرس کے مقابلے کیلئے عوام کو صرف اور صرف برسراقتدار قیادت اور اس ملک کی حکومتی مشینری کے ساتھ ساتھ عساکر پاکستان کا ساتھ ہے۔ وجوہ کچھ بھی ہوں، عساکر پاکستان نے ہر نازک موقع، ہر آزمائش کی گھڑی، ہر ناگہانی آفت، زلزلوں، سیلابوں، ایسی آفات سمیت ہر اندرونی و بیرونی محاذ پر ان دشمنوں اور ملک و قوم کی سالمیت و یکجہتی کے خلاف دشمنوں کی سرگرمیوں کا خانفشانی سے مقابلہ کیا۔ اس راہ میں عساکر پاکستان نے جس خانفشانی، بہادری، جرأت و دلیری کے ساتھ تحفظ قوم و وطن کیلئے جو قربانیاں دیں اسے فراموش کیا ہی نہیں جاسکتا۔ مقام شکر ہے کہ کرونا وائرس ایسی موذی وباء سے قوم کو تحفظ دینے اور اس سے امہ پاکستان کے مریضوں کی دیکھ بھال کرنیوالے مسیحائوں اور انکے اعضاء جوارح نرسوں اور دوسرے عملے کی حفاظتی ضروریات پوری کرنے کیلئے وفاقی حکومت کیساتھ یکجان ہوکر جس طرح دن رات پوری لگن کے ساتھ سرگرم عمل رہنے کی جو مثالیں قائم کی ہیں، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ایسے میں یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بیرونی ممالک بالخصوص عوامی جمہوریہ چین سے طبی سامان اور عملے کیلئے کٹس منگوانے میں شفافیت کا جو معیار شامل عمل بنا کر دکھایاہے، اس سے عساکرپاکستان کی عزت و توقیر عوام کے دلوں میں رچ بس گئی ہے۔ حالیہ پرآشوب دورمیں اگرچہ پاکستان میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتوںمیں اور دو ایک دیگر کی طرف سے عوام میں ریلیف کے کام کرنے کے اعلانات ہوئے اور وہ نظر بھی آرہے ہیں مگر ملک کے بعض بڑے بڑے قدرآور سیاسی رہنمائوں کی طرف سے حکومتی اقدامات پر صرف اور صرف تنقید و تضحیک کے تیر برسانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کے مقتدر رہنمائوں کی طرف سے کرونا وائرس کے حوالے سے کسی قسم کی تجاویز منظر عام پر نہیں آئیں البتہ حکومتی ریلیف کے اقدامات پر ’’مین میخ‘‘ نکالنے پر اپنے بیانات کا سلسلہ جاری رکھا جا رہا ہے۔ بعض اپوزیشن رہنمائوں کی طرف سے حکومت اور اپوزیشن کو ایک ساتھ مل کر صورتحال سے نمٹنے پر زور دیا جا رہا ہے مگر اس قسم کے بیانات کا مقصد محض برسراقتدار قیادت کو نیچا دکھانا اور حکومتی و عسکری باہم تعاون کے بے مثال اور اٹوٹ تعلقات میں رخنہ ڈالنے کے مترادف ہے جس کا پاکستان ایسی حالت میں کسی صورت متحمل نہیں ہوسکتا جبکہ ملک کے مسائل میں گھرے ہوئے اور عالمی وباء کرونا وائرس سے خوفزدہ عوام موجودہ صورتحال سے نکلنے میں پوری طرح پرامید ہیں۔ جہاں تک پاکستان میں لاک ڈائون کے مضمرات اور اثرات کاتعلق ہے، یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اس کا اظہار وزیراعظم عمران خان بذات خود متعدد بار کرچکے ہیں کہ پاکستان کی تقریباً 40فیصد آبادی خط غربت سے نیچے کی زندگی بسر کر رہی ہے۔ اکثریت لوگ دیہاڑی دار ہیں، مزدوری کرتے ہیں۔ خوانچہ فروش ہیں۔ رنگ و روغن کے کام سے روزی کماتے ہیں۔ روڑھی کوٹتے ہیں۔ منڈیوں میں محنت مزدوری کرتے اور بوجھ اٹھاتے ہیں۔ ایک بہت بڑا سفید پوش طبقہ ہے، ان میں بعض کو 8 یا 10ہزار روپے ماہوار پنشن کا سہارا ہے۔ لاکھوں ایسے بھی ہیں جو ای او بی آئی کی پنشن 8500روپے ماہوار پر زندگی کے دن پورے کرتے ہیں۔ ایسے ہی سفید پوش طبقے ہیں، بیشتر کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں۔ جس قسم کے تنگی و ترشی کے دنوںمیں وہ مکان کا کرایہ ادا کرنے کیلئے دن رات معمولی سے معمولی کام کرتے رہتے ہیں، اس کا اندازہ یقینا حکومت اور ارباب اختیار کو بھی نہیں ورنہ ایسے سفید پوش طبقہ کو لاک ڈائون کے نتیجے میں پیش آمدہ بدترین اقتصادی مشکلات کا ازالہ کرنے کیلئے حکومتی سطح پر سوچ بچار کی جاتی۔
اپوزیشن کی تنقید اور طنز کے تیز نشتر بدستور ارباب حکومت پر برستے رہیں گے مگر ارباب حکومت کو اپوزیشن کے اعتراضات سے قطع نظر عوام کے محروم طبقوں کی محرومیوں کا مداوا کرنے کے نظر آنے والے اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔ جہاں تک کرونا وائرس سے چھٹکارا پانے کا تعلق ہے، پاکستان کا قیام اللہ اور اس کے رسولؐ کے نام پر اسلامیان ہند کے حضرت قائداعظم کی عظیم قیادت میںبڑی جدوجہد کے بعد عمل میں آیا تھا۔ یہ فیضان مصطفی ؐ ہی ہے کہ عالمی وباء کی قہر سامانیوں نے دنیا کے بڑے بڑے ممالک میں ہلاکتوں کا بازار گرم کر رکھا ہے مگر ہلاکتیں پاکستان میں بھی ہو رہی ہیں مگر ارباب حکومت اورعوام کے پریشان کن صورتحال میں بھی بہت حد تک محدودہیں۔ اس کا پورا کریڈٹ اس برسراقتدار اور عسکری قیادت کو جاتا ہے جو پاکستان کو سرکاردوعالمؐ کی تعلیمات و فرمودات کی روشنی میں صحیح معنوں میں ایسی مملکت کا روپ دینے میں ہم آہنگ ہے جو ریاست مدینہ کا پرتو ہو۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر پاکستان میں بزعم خود اپوزیشن کے رہنمائوں کو اس امر کی توفیق ہوتی کہ وہ کسی اعتراض حیل و حجت اور تنقید کے بغیر غیرمشروط طور پر برسراقتدار قیادت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے بھرپورتعاون کو پیش کرنے کا اظہار کرتے اور ان پر انہی کے دور اقتدار میں قائم کئے گئے قومی احتساب بیورو کی طرف سے جن الزامات کے تحت ان کے مقدمات زیرسماعت ہیں ،ان کا معاملہ عدلیہ پرچھوڑ دیا جاتا جس کے فیصلے پر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا کیونکہ اس حقیقت سے انکار کسی کے بس کی بات نہیں ہے کہ حالات پلٹا کھا چکے ہیں۔ وجوہ کچھ بھی ہوں، اب ’’الیکٹڈ‘‘ کو ’’سلیکٹڈ‘‘ کا واویلاکرنے سے ’’ریجکٹڈ‘‘ کا داغ نہیں دھل سکے گا۔

ای پیپر دی نیشن