کرونا:حکومت کو عدلیہ کی فعال معاونت!

کرونا وائرس کی تباہ کاریوں نے یکساں طورپر پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ دنیاکے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سناٹا اور سکوت طاری ہے۔ ترقی یافتہ ممالک بھی اس موذی و مہلک مرض کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں ۔ دنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت چین پر کرونا نے سب سے پہلے حملہ کیا۔ چین کو اچانک عالمی تنہائی کا شکار ہونا پڑا۔ پاکستان کے سوا اکثر ممالک نے فوری طور پر اپنے شہریوں کو چین سے نکال لیا۔
کرونا کی ویکسین تو ابھی تک نہیں بن سکی جبکہ موذی وبا کی طرف سے دنیا پر پنجے گاڑے چارماہ ہو رہے ہیں یہ مرض ایک سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے اور تیسرے سے چوتھے شخص میں تیزی سے منتقل ہو جاتا ہے۔ چین میں موجود تین ہزار سے زائد پاکستانی واپس لائے جاتے تو ان میں سے چند ایک متاثرہ بھی ہو سکتے تھے۔ جو پاکستان میں کرونا کے تیزی سے پھیلاؤ کا سبب بنتے۔ یورپ اور امریکہ نے اپنے شہریوں کو چین سے واپس لا کر اس وباکو اپنے ہاں منتقل کر لیا۔ چین نے فوری طور پر حفاظتی اقدامات کر کے کرونا سے نجات حاصل کر لی مگر یہ جدید طبی سہولتوں سے آراستہ امریکہ ،برطانیہ ، سپین، اٹلی اور جرمنی جیسے ممالک پر قہر بن کر ٹوٹ رہا ہے۔ پاکستان میں بھی حکومت کی طرف سے ممکنہ اقدامات کے باوجود کرونا در آیا۔ یہ ایئر پورٹس اور پڑوسی ممالک کے بارڈرز کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوا۔ حکومت نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس سے مکمل طور پر بچا جا سکے لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ اسکے ساتھ حقیقت یہ بھی ہے کہ حکومت کے ان اقدامات کے باعث کرونا سے جس تباہی کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھااس سے پاکستان محفوظ رہا۔
حکومت نے لاک ڈاؤن کے باعث کرورڑوں لوگوں کو بھوکوں مرنے سے بچانے کیلئے 8ارب ڈالر مختص کئے۔ دو ہفتے کے سخت لاک ڈاؤن کے بعد اب سختی کم کی گئی ہے۔ حالات ابھی تک تو کنٹرول میں ہیں۔ مرکز اور صوبوں کے انتظامی معاملات سپریم کورٹ کی ابزرویشن کے مطابق مزید شفافیت کے متقاضی ہیں۔ سپریم کورٹ کی طرف سے مرکزی حکومت اور کچھ مرکزی وزراء کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیتے ہوئے کچھ کمزور پہلوؤں کی نشان دہی کی گئی۔یہ عدلیہ کی طرف سے حکومت کی مخالفت نہیں معاونت ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رُکنی بینچ کی ابزرویشن کو مثبت انداز میں لیا جبکہ سوشل میڈیا پر بے جا تنقید کے دروا زے کھل گئے۔سوشل میڈیا آزادی رائے کے اظہار کے نام پرمعززین کی پگڑیاں بھی اچھالنے سے گریز نہیں کرتا۔ وزیر اعظم نے ججز کیخلاف میڈیا میں توہین آمیز مواد پوسٹوں اور پیغامات کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی اے کو انکوائری کا حکم دیا ہے۔کچھ ذمہ دار لوگوں کی طرف سے غیر ذمہ دارانہ بیانات سامنے آئے ہیں۔ ایسے لوگوں پر بھی عمران خان برہم ہوئے ہیں۔
سماعت کے دوران ایک موقع پر سپریم کورٹ نے معاون خصوصی برائے صحت ظفر مرزا کو عہدے سے ہٹانے کی بات کی مگر حکم جاری نہیں کیا۔اس بات کو لے کر بینچ پر بے جا تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ظفر مرزا کے بارے میں سخت ریمارکس مبینہ طور پر ان کے غیر سنجیدہ رویہ کے باعث ہی دیئے گئے۔اس رویئے سے وزیر اعظم بھی برہم دکھائی دیتے ہیں۔ایک خبر کے مطابق وزیراعظم نے سپریم کورٹ میں کورونا کی روک تھام سے متعلق حکومتی کاوشوں کو مناسب طریقے سے پیش نہ کرنے کا نوٹس لیا اور معاون خصوصی برائے صحت ظفر مرزا کی سرزنش کی۔ بطور معاون خصوصی ظفر مرزا کافرض تھاکہ وہ اعلیٰ عدلیہ کے سامنے حکومتی کاوشوں کو جامع انداز میں پیش کرتے ۔
سپریم کورٹ کے پاس بڑے اختیارات ہیں،جتنے اختیارات ہیں اتنا ہی بڑا ظرف صبر اور حوصلہ بھی ہے،جس کا عکس مذکورہ سماعت کے دوران بھی نظر آیا۔ مجھے ایک واقعہ یاد آگیا میں سیکرٹری قانون تھا،محمد خان جونیجو کی کابینہ کا اجلاس ہو رہا تھا۔ کابینہ سیکرٹری کا نام میںنہیں لینا چاہوں گا، اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ تمام وزراء موجود تھے۔ وزیر قانون اس وقت اقبال احمد خاں تھے۔ زیر بحث مسئلہ یہ تھا کہ فیڈرل شریعت کورٹ نے ایک فیصلہ دیا تھا کہ مسلح افواج کے ارکان کو بھی بغیر نوٹس کے برطرف نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کسی طرح کی خلاف ورزی پر آپ نے انہیں برطرف کرنا ہے تو پہلے شوکاز نوٹس دیں۔ انصاف کے تمام تقاضوں کی پاسداری کرنے کے بعد ہی انہیں نکالا جائے۔ اس حوالے سے قانون میں ترمیم ہونا چاہئے تھی۔ کابینہ سیکرٹری نے کہا کہ شریعت کورٹ کا دائرہ عمل یہاں کہاں سے آ گیا؟ ان کا تو ان چیزوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایسے فیصلے کیسے کر رہے ہیں، انہیں اس کی جرأت کیسے ہوئی؟اس پر میں نے سیکرٹری کابینہ سے مخاطب ہو کر کہا: جناب، آپکے ریمارکس توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں۔ میں صرف سیکرٹری قانون نہیں، جج بھی ہوں اور میں نے اس کا نوٹس لے لیا ہے۔اس پر سب خاموش ہو گئے۔میرے خیال میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میںسپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی طرف سے کرونا وائرس کے تدارک کیلئے حکومت کی بر وقت اورصحیح سمت رہنمائی کی گئی ہے۔ اس آفت ناگہانی سے نجات کیلئے حکومت، فوج اور عدلیہ سمیت متعلقہ اداروں کو جس طرح ایک پیچ پر ہونا چاہیے، آج وہ نظر آ رہے ہیں۔ تا ہم سیاستدانوں کے مابین مطلوب یکجہتی و یگانگت کا فقدان افسوس نا ک ہے۔ ایسی نازک صورتِحال میں بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے بلیم گیم جارہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن