اسلام آباد (عترت جعفری)جی 20 ممالک کی طرف سے پاکستان کے ذمہ قرضوں کے مؤخر ہونے کے بارے میں ملک کو کتنا مالی فائدہ ہوا ہے اس کے بارے میں کنفیوژن پایا جاتا ہے،وزارت خزانہ نے مالی ریلیف کی وضاحت کے حوالے سے کوئی بیان یا وضاحت جاری نہیں کی ہے جس سے معلوم ہو سکے کہ پاکستان کو موجودہ مالی سال یا آئندہ مالی سال میں ان قرضو ں کی واپسی کے موخر ہونے سے کتنے پیسوں کی بچت ہو گی؟جی 20ممالک میں پیرس کلب کے 9ممبر ممالک شامل ہیں،پیرس کلب کو پاکستان کے خلاف قرضہ 12.5بلین ڈالر تھا جو2001ء میں ری شیڈول ہو گیا تھا،اسے2038تک ادا ہونا ہے ،موجودہ مالی سال یا آئندہ مالی سال میں اس قرضے کی اگر کوئی قسط واجب الادا بھی ہو تووہ چند کروڑ ڈالر سے زائد نہیں ہو سکتی ،اسی پیرس کلب میں دو ایسے ملک ہیں جن کے پاکستان کے ذمہ دو طرفہ قرضے سب سے ذیادہ ہیں،ان میں چین اور سعودی عرب شامل ہیں ،ان دونوں ممالک کو حوالے سے صورتحال خاصی دلچسپ ہے،جب پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ 6ارب ڈالر کا قرضہ لینے کے لئے بات چیت کر رہا تھا ،تو اس کی ایک شرط یہ تھی کہ قرضہ پروگرام کے معیاد کے دوران اگر ان دونوں ممالک کے قرضہ کی کوئی قسط واجب الادا ہوئی تو وہ ادا نہیں کی جائے گی ،جبکہ آئی ایم ایف کے بورڈ میں ان دونوں ممالک نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کی وی قرضہ پروگرام کی سہہ سالہ معیاد مین اپنے قرضے کی قسط کو موخر کر دیںگے ،اس طرح پاکستان پہلے یہ سہولت سے فیض یاب ہو رہا ہے ،جی 20میں بھارت،برازیل اور ارجنٹائن شامل ہیں ،ان تین ممالک کا پاکستان کے ذمہ کوئی قرضہ نہیں ہے ۔پاکستان کا ایشو دوطرفہ قرضے نہیں بلکہ کثیر القومی قرضے ہیں جو ورلڈ بینک ،آئی ایم ایف اوراے ڈی بی کے ہیں،پاکستان نے اپریل تا جون کی سہہ ماہی میں کثیر القومی اداروں کے تین ارب ڈالر سے ذاید کے قرضے واپس کرنا ہیں ،اائی ایم ایف کی طوف سے1.38بلین ڈالر کا قرضہ بھی ممکنہ طور پر اسی پس منظر میں ہے تاکہ پاکستان کا ادائیگی کا توازن خراب نہ ہو،آئی ایم ایف جس نے تاحال قرضہ پروگرام کے دوسرے ریویو کی منظوری نہیںیہ کہا ہے کہ پاکستان کو ادائیگی کا توازن بہتر کرنے کے لئے ڈونرز سے تیزی سے پیسے لینے ہوں گے ۔یعنی پاکستان کو مذید قرضے لینے کو مشوری دیا گیاہے ۔وزارت خزانہ کی طر ف سے مکمل صورتحال سامنے لانے پر ہی پاکستان کو ملنے والا ریلیف واضح ہو گا۔