کرہ ارض پر پاکستان پہلا اور واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا اور یہ جمہوری جدوجہد کے نتیجہ میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے تصور اور بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز قیادت کا ثمر ہے۔ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر مملکت خداداد پاکستان کی جدوجہد میں عوام الناس نے بہت زخم کھائے اور بے بہا قربانیاں دیں۔ اس وقت کی برطانوی حکومت ہندوستان کی کانگریس قیادت سے درپردہ مسلمانوں کیخلاف مستقبل کی منصوبہ بندی کر چکی تھی ۔ وہ ہندوستانی قوم کو بحیثیت قوم حق حکمرانی دینے پر اپنے مخصوص مفادات کے زیراثر تیار تھی مگر مسلمانوں کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھی۔ متحدہ قومیت کے تصور کو مسلمانوں کے بعض طبقات ‘ جماعتیں اور بعض صوبائی خان اور سردار اور قبائلی انگریز کے وظیفہ خوار اور کانگریس کے نمک خوار سپورٹ کررہے تھے۔
علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ جداگانہ قومیت کے بہت بڑے داعی تھی۔ قائداعظمؒ کو ان کی مخلصانہ تائید و حمایت اور رہنمائی حاصل تھی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے اسلامی لٹریچر نے جداگانہ قومیت اور مسئلہ قومیت کو نکھار کر پڑھنے لکھے طبقہ کو متاثر کیا۔ علماء کا ایک بہت بڑا طبقہ مولانا بشیر احمد عثمانی‘ مولانا ظفر احمد عثمانی ‘ مولانا ظفر احمد انصاری وغیرہ نے بھی بھرپور طور پر مسلمانوں کی الگ علیحدہ قومیت کیلئے جدوجہد کی۔ پاکستان تو اللہ کے فضل و کرم سے وجودمیں آگیا مگر ہندو بنیے کو ہندوستان کی تقسیم گوارہ نہ ہوئی اس نے ہندؤں اور سکھوں کو مسلمانوں کے قتل عام پر اکسایا لاکھوں مسلمان مہاجر پاکستان کی طرف ہجرت کرتے ہوئے ان ظالموں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ ہزاروں خواتین ان ظالموں نے اغوا کر لیں شاید ہی کسی قوم اور ملک نے آزادی کی اتنی بھاری قیمت ادا کی ہو۔
اب چاہئے تو یہ تھا کہ جس ملک کیلئے اتنی شاندار جمہوری جدوجہد کی گئی ‘ جس ملک کا قائد بھی اپنی خداداد صلاحیتوں اور اسلامی جمہوری نظام سے والہانہ عشق رکھتاہو‘ وہ ملک ایک مثالی اسلامی مملکت کی حیثیت سے دنیا کے نقشہ پر اپنی تابندہ روایات کے ساتھ جلوہ گر ہوتا۔ دنیا قرآن و سنت کی بنیاد پر ترقی کرتے ہوئے ملک کو دیکھ کر اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرتے اور پاکستان سے تعلقات و اتحاد کے ناطے استوار کرنے میں خوشی محسوس کرتے مگر اللہ کی مشیت کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ پاکستانیوںکے ایمان کو اور آزمایا جائے چنانچہ آزادی کے دوسرے سال ہی بابائے قوم وفات پا گئے۔ آزادی کی خوشی بیشک ان کا انعام تھا مگر اپنے اردگرد بعض رفقاء کی وجہ سے سخت نالاں اور رنجیدہ تھے اور انہیں اپنی جیب کے کھوٹے سکے قرار دیتے تھے۔
قائداعظمؒ متعدد بار یہ بات فرما چکے تھے کہ پاکستان تو اس روز ہی وجود میں آگیا تھا جس روز ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ یہ اللہ اور اللہ کے رسولؐ پر ایمان لانے کا اعجاز ہے کہ بتوں کا پجاری کلمہ پڑھتے ہی سب ارضی خداؤں کا منکر اور ایک خدائے واحد و برتر کا بندہ۔ مولانا مودودویؒ فرماتے ہیں کہ جب کوئی انسان اللہ اور اللہ کے رسولؐ برحق پر ایمان لاتا ہے تو کوئی وقت نہیں گزرتا کہ اس فرد کے اسلام لانے کا اولین ثبوت سامنے آجاتا ہے اور کسی نہ کسی نماز کا وقت ہو جاتا ہے اور وہ اللہ کے حضور سربسجود ہو کر اپنے ایمان لانے کا ثبوت دے دیتا ہے مگر یہاں اسلامی جمہوری پاکستان میں تو جماعت اسلامی کے سوا کوئی جماعت اپنے لیڈروں‘ مرکزی صوبائی اور ضلعی ذمہ داران کیلئے نماز جسکی خدا کے ہاں اول اول پرسش ہو گی انجام نہیں کرتے۔ پارٹیوں کے صدر ‘ چیئرمین اور کرتہ دھرتہ تک نماز کی رکعات اور نماز کی ترتیب تک سے بے خبر ہیں۔ قرآن و حدیث کے علم اور تلاوت تو بعد کی بات ہے بس کرسی کرسی کا پتہ ہے یا ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے سروکار ہے۔
دنیا میں شاید ہی کوئی اسقدر مفادات میں اندھا ملک ہو جسکی سیاسی پارٹیاں دن رات ایک دوسرے سے کشتی لڑتی ہیں۔ ملکی مفاد اور عوام کی فلاح مقصود نہ ہو۔ سیاسی پارٹیوں نے اپنے وکرکرز کارکنان کی صحیح نہج پر تربیت کی ہوتی تو آج جبکہ کرونا وائرس کی وبا نے ساری دنیا کے ساتھ پاکستان ایسے غریب مقروض ملک کو گھیر رکھا ہے۔ دل و جان سے تعمیر کے کام میں لگی ہوتیں۔ جماعت اسلامی اور اسکی ذیلی تنظیمیں الخدمت متاثرین کی خدمت میں کام کر رہی ہیں ان حالات میں ڈاکٹروں‘ نرسوں میڈیکل سٹاف کی دلجوئی اور ان کیلئے دعائیں کرنے کا موقع ہے۔ افواج پاکستان‘ رینجرز‘ پولیس‘ افسران اور حکومتی وزراء ممبران سب قابل ستائش ہیں۔ بھارت کی طرف سے سرحد پر خونریزی جارحیت روز افزوں ہے۔ بھارت کی جو پارٹی بھی حکمران ہو اسکی پاکستان کیخلاف پالیسی یکساں ہے۔ یہ ازلی دشمن ہمارے ہاں سے ایجنٹ اور مہرے تلا ش کر لیتا ہے۔ اس دشمن کیلئے افواج پاکستان کو اسکی جارحیت کیخلاف یکسو ہونا چاہئے مگر ہم یہاں سیاسی دنگل کی وجہ سے مجبور ہیں کہ افواج سے متعدد کام بھی لیں اور مالی قربانیاں بھی مانگیں۔ اربوں ڈالر جمع رکھنے والے لیڈر اور پارٹیاں حکومت کی ٹانگیں کھینچنے اور لوگوں کو اکسانے ‘ بھڑکانے اور مطالبات کیلئے گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ کرونا وائرس کی کوئی میعاد نہیں‘ بخار نہیں کہ اتر جائیگا‘ زخم نہیں کہ مندمل ہو جائیگا‘ درد نہیں کہ گولیاں کھانے سے آرام دیگا۔ آخر کب تک لوگوں کو کاروبار بند کرنے‘ کارخانے‘ صنعتیں اور فیکٹریاں بند رکھنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ دیہاڑی دار مزدور‘ ریڑھی خوانچہ والہ‘ کاریگر کام بند رکھ کر بھوک کا مقابلہ کر سکے گا‘ ملکی وسائل کب تک مستحقین کو الاؤنس دے پائیں گے‘ تنگ آکر لوگ باہر نکل کھڑے ہونگے‘ یہ وبا جو ہاتھ ملانے اور انسانوں کی ایک دوسرے سے قربت سے پھوٹتی ہے ‘ جان لیوا ثابت ہو گی۔ انسان دکانوں میں ‘ گلیوں‘ بازاروں میں ‘ کاروباری مقامات پر تڑپ تڑپ کر مر رہے ہوں گے‘ لاشیں بکھڑی پڑی ہونگی‘ کون کسی کا پرسان حال ہو گا۔ اللہ تعالیٰ سے معافی و استغفار طلب کرنے کے سوا چارہ نہیں‘ مسجدیں ویران ہیں‘ طواف رک چکا ہے‘ روضہ رسولؐ کی حاضری بند‘ معافی۔ میرے مولا‘ معافی۔ خدا کیلئے ساری سیاسی اور مذہبی پارٹیاں حکومت سے اختلافات ‘ رنجشیں اور انکے قصور و زیادتیاں بھلا کرحکومت کا ہاتھ بٹائیں‘ ساتھ دیں۔ زندہ بچے تو سیاست ہو جائیگی۔