ضد،ہٹ دھرمی،احساسِ حسد اورجذبہ ِ رقابت میں مبتلا بعض انگریزی جرائد کے چند لکھاری جنہیں ملکی سماج،معاشرتی،ثقافتی اورسیاسی منظرنامے پر پھلتی پھولتی جمہوری قدروں کے ثمرآور موسم میں نجانے کیوں گھٹن اور زبردستی کا حبس زدہ ماحول ہمہ وقت چہارسو پھیلا ہوا معلوم دیتا ہے پہلے بھی کئی بار اس موضوع کو ضبط تحریر میں لایا جاچکا ، گزشتہ دوبرس کے جمہوری سیاسی ثمرات سے یہ خود بھی مستفید ہونا نہیں چاہتے بلکہ اپنے ساتھ عوامی طبقات کو خاص کر بیرونی پاکستانیوں کو گمراہ کرنے کی خاطر کیسے کیسے مفروضات پر مبنی کبھی آرٹیکل لکھ مارتے ہیں کبھی اداریہ… بات سمجھداروں کی سمجھ میں آ نہیں آرہی ،گزشتہ10 برس کا جمہوری سسٹم ایسوں کے لئے’’ متاع ِحیات‘‘ کیوںتھا؟ سال 2018جولائی میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں پی ٹی آئی حکومت کے دور میں انگریزی داں چند لکھاری ہمہ وقت منہ بنائے پْرخاش کانٹوں ہی کانٹوں کے متلاشی کیوں رہتے ہیں ‘وزیراعظم خان سے یہ چند لوگ اپنے اندر کے کینہ ‘عداوت‘تکدر اور غلط فہمیوں کوبھلا کر بحیثیت جرنلسٹ اپنا صحافیانہ کردار ادا کرنے پر کیوں نہیں آتے جو پاکستان کی مضبوط جڑپکڑتی ہوئی جمہوری اقداراور زیادہ عوامی طاقت سے سرافراز کرنے کی اعلیٰ روایات میں اپنا حصہ کا سبب بن سکے پاکستان نے اِنہیں کیا نہیں دیا؟سوال ہے کہ اپنے مفادات چاہے مالی مفاد ہوں یا کسی بڑے عہدوں کے حصول کے لئے اِنہوں نے اپنے اندر یہ نفرتیں پالی ہوئی ہیں آخر یہ کب ’’میچور‘‘ہوں گے ؟اِن کے بال سفید ہوگئے اور دلوں کا حال اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے سمجھ نہیں آرہا کہ کیوں اپنے مفاداتی جذبات سے مغلوب یہ لوگ وقتا ًفوقتا ًبے کار سی نئی تنقیدی بحث میں خود بھی الجھتے ہیں اور اپنے پڑھنے والوں کو بھی گمراہی کی راہ پر ڈالنے میں اپنی توانیاں ضائع کردیتے ہیں ایک بالکل ہی بیکاراور لاحاصل مذموم سی کوششیں آخر کب تک؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ لوگ جن کا تذکرہ ہورہا ہے ’اعلیٰ تعلیم یافتہ‘‘ہیں فکری اور شعوری اعتبار سے جن سیاسی قائدین کے ہاتھوں اْنہوں نے ’’بیعت‘‘ کی ہوئی ہے، وہ دونوں ’صاحبان‘ جنہیں عدالتوں نے ’خائن‘قرار دیا ،جو کرپشنز کے کئی کیسوں میں ملوث ہیں جنہوں نے گزشتہ دس برس کی اپنی اپنی حکومتوں میں جو ’’گند‘‘کیا وہ اپنی جگہ لائق مذمت ‘ اْنہوں نے معروف جمہوری قدروں کی جڑوںپر کلہاڑیاں نہیں ’’کہلاڑے‘‘چلائے ہیں، جمہوری قدروں کو پھولنے پھلنے دینے کی بجائے ملکی جمہوریت کے ایک ایک پَر کو عین اْسی سسکتے مرغے کے پَروں کی طرح سے نوچا ہے جیسے فرانس کے میسولینی اور جرمنی کے ہٹلرنے اپنے ہاتھوں میں دبوچے ہوئے مرغ کے پَر ایک ایک کرکے نوچے تھے، ملک میں جاری جمہوری سسٹم کو’’ملٹری اثرات‘‘کی مغلوبیت سے تشبیہ دینے والے اس زیر تذکرہ انگریزی ہفت روزہ میں جن ’’جناب‘‘نے بھی اپنے فکری وذہنی ’’موڈ‘‘کا اظہار کیا اْنہوں نے پاکستانی قوم کی ترجمانی کافرض ادا نہیں کیا ،جو کچھ بھی بطور تحریر ہمارے سامنے آیا کوئی ذرا بھی سنجیدگی ان آرٹیکلز میں موجود نہیں ‘ گئے ہفتہ کے اس جریدے کے داریہ میں وزیراعظم عمران خان کی قبول عام قائدانہ شخصیت پر کیچڑ اچھالنے اْنہیںملٹری ٹول ثابت کرنے میں ہی اپنا سارا قلمی زور صرف کردیا گیا جس کے نکات پڑھ کر صاف معلوم ہوتا ہے مخفی نہیں ‘ کہ لکھنے والا جان بوجھ کر اپنے قلم سے سچائی بیان کرنا نہیں چاہا رہا،بلکہ اپنے آپ کو دوسروں سے بہترسمجھ کر ضد اور عناد کی نفرتوں کا اسیر ہے اس وقت ان پر ہٹ دھرمی کی سی کیفیت مسلط اور واضح ہوجاتی ہے جب خواہ مخواہ ملک کے حساس قومی اداروں سے الجھنے کی سعی اور کوشش کی جاتی ہے ’’کسی مسئلہ کو سمجھنا’’ دونوں لکھاریوں‘‘ میں سے کسی ایک کے پیش نظر سرے سے ہے ہی نہیں‘ انگریزی استعاروں کی لفاظیت کے سہاروں جو شیلی قسم کی باتیں کرکے انتہائی حساس قومی اداروں کے اعلیٰ ترین حکام کو اکسانے کی ناکام کوششوں میں اپنے طور پر یہ سب مصروف عمل ‘ حساس قومی اداروں کے خلاف جھوٹی بے پَر کی کہانتیں گھڑ کر اپنے حلقوں کو باور کرانا چاہتے ہیں ’’دیکھیں جی!ہم کتنی تلخ باتیں کرتے ہیں ہم کسی سے ڈرتے نہیں ہیں؟‘‘ جبکہ یہ ’’مفاہمت پسند‘‘ہیں مفاہمت یعنی ان لوگوں کا’’مائنڈ سیٹ‘‘کمپرومائز ہوتا ہے ان یہی تعریف ان کے لئے اگر کافی ہے تو ہم اس اقسام کی تعریفوں کو لائق تحسین ہرگز نہیں گردانتے فوج اور حساس اداروں کو سیاست میں گھسیٹنے جیسے کڑوے کسیلے،جھوٹے من گھڑت خود از تخلیق کیئے گئے گھٹیا الزامات دنیا بھر میں جہاں اِن کا جی چاہے لگاتے پھریں اس نفسیاتی بیماری کا علاج کسی کے پاس نہیں ہے دنیا کے علاوہ پاکستان میں بھی انہیں کوئی پوچھتا تک نہیں ’’منتخب‘‘وزیراعظم عمران خان کوپشاور کے ایک بزرگ سیاسی قلم کار نے اپنے مضمون میں ’’سیلکڈڈ‘‘کہہ کر مخاطب کیا تو یہ اْن کا استحقاق ہے اپنی پارٹی لائن کو وہ ’’فالو‘‘کررہے ہیں، ہوسکتا ہے اس باقی عمر میں اْنہیں اور کچھ فائدہ مل جائے، جہاں تک سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے ’’جزوی لاک ڈاون‘‘کی بجائے ’’سخت لاک ڈاون‘‘لگانے کی بات کی‘ یہ صوبہ کا اندرونی معاملہ ہے لیکن صاحبو!پنجاب، خیبر پختونخواہ اوربلوچستان نے’’کووڈ19‘‘کو پھیلنے سے روکنے کے لئے باہمی مشاورت سے کیئے جانے والے فیصلوں کے بعد اسی مذکورہ بالا انگریزی جریدے کے مہم پسند لکھاریوں نے ’’نتیجہ ِ بد‘‘کیسے اخذ کرلیا کہ خدانخواستہ(اللہ تعالیٰ پاکستانی قوم پراپنا خصوصی رحم وکرم فرمائے آمین)اس وبا سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے وفاقی حکومت کو ملک میں یکساں مستقلاً لاک ڈاؤن کرنا چاہیئے تھا آج جو حلقے وفاقی حکومت کے فیصلوں پر معترض ہیں وہ ذرا اپنے اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر انصاف سے بتائیں ملک بھر کے بے روزگاروں کا کیا ایسا ڈیٹا موجود ہے، ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں روزگار کی تلاش میں گروہ در گروہ پاکستانیوں کی نقل وحرکت جاری رہتی ہے کیسے ایک ایک گھر کا دروازہ بجاکر راشن پہنچا جاتا؟جنرل ایوب سے جنرل ضیاء تک کے اقدامات جن میں ’’یوم پاکستان ‘‘کے پریڈڈے کو تنقید کے زمرے میں شامل کرنے والے آج ’’ یوم جمہوریہ‘‘ کی باتیں یاد کرارہے ہیں ’’یوم جمہوریہ‘‘اتنا ہی آپ کو عزیز تھا بیس برس تک آپ کی سیاسی وجمہوری حکومتیں رہیں جمہوری ایوانوں میں آپ کی اکثریت تھی آپ اپنی سوچ میں آج متعصب نہ ہوتے تو آپ کی پسندیدہ سیاسی جماعتیں بڑی آسانی ’’یوم پاکستان‘‘ کی بجائے ’’یوم جمہوریہ‘‘منانے کا قانون پاس کرواسکتے تھے؟ یہی نہیں جنرل ضیا کے زمانے سے اب تک کئی گئی اُن تمام آئینی ترامیم کو حذف کرایاجاسکتا تھا جو ایک ’’خالص جمہوریہ‘‘ریاست کی آپ جیسوں کی مانگ ہے’’جمہوریہ ‘‘ کے ساتھ ’’اسلامی ‘‘کا لاحقہ ہی آپ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے تو نکال دیتے ’’ناقابل تلافی نتیجہ‘‘ کے ہیجان خیز ہلاکتوں سے خبردار کرنے والے پاکستان دشمن بیرونی ایجنٹوں کو عوام اب بھگا بھگا کرصرف دوڑائیں گے نہیں بلکہ ذراقوم کو ’’پینڈمک کووڈ19 ‘‘ سے نمٹنے لے بہت جلد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا سوشل میڈیا پر ملک کے جاری جمہوری سسٹم کے خلاف بے اعتمادی اور گمراہی پھیلانے میں یہ آج ہی سرگرم نہیں ہوئے کل بھی جمہوریت مخالف تھے آج بھی یہ خالص جمہوریت کے خلاف اپنی اپنی انگھٹیو ںمیں اپنے اپنے پسند کے کوئلے سلگھانے میں پھنکے جھل رہے ہیں ،ساتھ ساتھ خود بھی سلگ رہے ہیں اورقوم کے سامنے بے نقاب بھی ہورہے ہیں۔