پچھلے ہفتے سپریم کورٹ میں کورونا بارے از خود نوٹس لے کر جو پہلی سماعت ہوئی اور اس کاروائی میں فاضل ججز نے جو ریمارکس دئیے اس پر میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی ایک شور سا مچ گیا۔ حتیٰ کہ سینئر وکیل اعتزاز احسن نے بھی اس معاملہ میں سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔حکومتی زعمائوں اور پی ٹی آئی کے لیڈران نے بھی اپنا غصہ نکالا جس پر بدھ کو وزیراعظم کو عدلیہ کے خلاف پراپیگنڈہ مہم روکنے کے احکامات دینے پڑے۔ہماری ناقص رائے کے مطابق سپریم کورٹ اور فاضل چیف جسٹس کے احکامات بالکل درست تھے۔ اعلیٰ عدالت میں بے شمار شعبے ہوتے ہیں اور پھر عوامی شکایات اور ہیومن رائٹس کے معاملہ میں پورا ایک سیل ہے جہاں سے کسی بھی مسئلہ پر رائے قائم کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔ہم روزِ اول سے وزیراعظم کے غیر منتخب مشیروں کی کارکردگی کارونا رو رہے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر مرزا کی ہی مثال لے لیں۔ ان کی ڈگریوں اور تجربہ پر کوئی شک نہیں لیکن یہ بھی ضروری نہیں کے ڈبلیو ایچ او میں کام کرنے والا کوئی بھی تجربہ کار 22 کروڑ کے حامل ملک میں صحت کے شعبہ میں پوری دسترس رکھ سکے۔ یہ لوگ بڑے دفتروں میں بیٹھ کر اپنے مخصوص ساتھیوں کی کمپیوٹرائزڈ رنگ برنگی پریذینٹیشنز کی مدد سے ایک خوبصورت تصوراتی نقشہ تو پیش کر سکتے ہیں مگر ملک کے رولرہیلتھ سینٹرز، ٹی ایچ کیوز اور ڈی ایچ کیوز میں کیا ہوتا ہے اس کا انہیں قطعاً ادراک تک نہیں ہوتا۔ فاضل چیف جسٹس نے ڈاکٹر ظفر مرزا بارے بالکل صحیح کہا کہ آپ ٹی وی پر خیالات فرماتے تو نظر آتے ہیں مگر فیلڈ میں کہیں بھی موجود نہیں ہوتے۔
اس وقت اگر انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد سے پورے ملک میں مبتلا کرونا کیسز کی تفصیلات منگوائی جائے تو ہوش اڑ جائیں گے۔ ایسے حالات میں ڈاکٹر ظفر مرزا نے تو بیگ اٹھا کرا گلی فلائٹ سے ملک سے باہر چلے جانا ہے مگر پیچھے جو ہو گا اس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔وزیراعظم ایسی ناقص کارکردگی والے مشیروں کے غلط مشوروں سے عجیب فیصلے کر بیٹھتے ہیں۔ جس بارے شور اٹھتا ہے کہ مقتدرہ قوتوں اور وزیراعظم کے درمیان فاصلے آنا شروع ہو گئے۔ اب جو عمران خان نے جزوی طور پر مختلف کاروبار شروع کرانے کا فیصلہ کیا ہے وہ بھی قطعاً غلط ہے۔ ایک طرف لاک ڈائون کی بات ہے تو دوسری طرف مزدور طبقہ کے نام پر آدھی مارکیٹس کھل چکی ہیں۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ خان صاحب ایسے عجیب و غریب فیصلے کس کی ایماء پر کر لیتے ہیں۔ پہلے جب سخت لاک ڈائون کی بات ہو رہی تھی تو وزیراعظم مزدوروں، دیہاڑی داروں اور چھابڑی فروشوں کی بات کرتے رہے۔ وزیراعظم کو نہ جانے بڑھتی ہوئی شدید بے روزگاری کیوں نظر نہیں آ رہی۔ دوسرا وہ ٹائیگر فورس بنائیں یا جنات کی کوئی فوج۔ دعوتاً یہ عرض کیا جا سکتا ہے کہ وہ غریبوں کودو وقت کی روٹی / راشن مہیا نہیں کر سکتے۔ ہر بڑے شہر میں قرنطینہ سنٹرز بنتے نظر آ رہے ہیں آنے والے دنوں میں ان سب میں ایسی ’’چمک‘‘ نظر آئے گی کہ طبیعت صاف ہو جائے گی۔ بھلے کوئی برا مانے یا شاید بات کسی کو اچھی نہ لگے خان صاحب نے پارٹی کے اندر کرپشن کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے ۔ ہماری سپریم کورٹ سے یہ بھی گذارش ہے کہ دوسری سماعت میں جب اُن کے سامنے حکومت کی کارکردگی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کی تفصیل پہنچے گی تو اس موضوع پر بھی کھل کر حقائق سامنے لانے کی بات کریں۔ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ہر بڑے عہدیدار کا ہوٹل ، ڈیرہ یا شادی ہال اس میں شامل ہو گا کہ جن کے ہوش ربا کرائے ہوں گے جہاں متذکرہ سنٹرز بنائے جا رہے ہیں۔ سرکاری سطح پر کہیں بھی منظم انداز میں راش کی تقسیم یا احساس پروگرام کے تحت روپوں کی تقسیم نظر نہیں آ رہی۔ ہماری ناقص رائے میں عمران خان اپنے پائوں پر کلہاڑی مارتے نظر آ رہے ہیں اور شاید ان کی حکومت کے تابوت میں یہ آخری کیل ثابت ہوں۔ جہاں تک سندھ کا تعلق ہے، سپریم کورٹ میں انہیں اور آڑے ہاتھوں لینے کی ضرورت ہے۔ یہ رقم تو کہیں خرچ نہیں کرتے تاہم سرکاری اعداد و شمار کو ہمیشہ اس انداز میں رکھتے ہیں کہ ان پر شک نہ کیا جا سکے۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ اعداد و شمار بھی خود تیار کرنا ہیں۔ آئوٹ بھی خود کرنا ہے اور فائنل رپورٹ بھی خود ہی مرتب کرنی ہے اور اگر کہیں مسئلہ ہوگیا تو عدالتیں بھی ان کی اپنی ہیں۔
اب آ جاتے ہیں وبائی امراض اور پاکستانیوں کے روئیے پر۔ اس پر مجھے خوبصورت واقعہ یاد آ گیا۔ ایک دفعہ ایک دانشور سے سوال کیا گیا کہ اللہ میاں اپنے بندے کو سزا کیوں دیتا ہے۔ جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کے ایک دوست ویٹنری ڈیپارٹمنٹ کے ایک پروفیسر صاحب کے پی اے نے انہیں آ کر بتایا کہ ایک بڑے ملک کی سفیر ملنا چاہتی ہیں اور اپنے کتے کے بارے میں مشورہ کرنا چاہتی ہیں۔ کچھ ہی دیر میں وہ خاتون سفیر اپنے اعلیٰ نسل کے کتے اور اپنے ضروری عملے کے ساتھ آن پہنچیں۔ بیماری پوچھنے پر کہنے لگیں کہ میرے کتے کے ساتھ عجیب و غریب مسئلہ ہے۔ اسے میں بلاتی ہوں۔ یہ دور بھاگ جاتا ہے۔ خدارا کچھ کریں یہ مجھے بہت عزیز ہے۔ اس کی بے اعتنائی مجھ سے برداشت نہیں ہورہی۔ ڈاکٹر صاحب نے کتے کو غور سے دیکھا، دس منٹ جائزہ لینے کے بعد کہا۔ میم ! یہ کتا ایک رات کے لیے یہاں چھوڑ جائیں۔ میں اس کا معائنہ کر کے حل ڈھونڈتا ہوں۔ سفیر محترمہ نے بے دلی سے حامی بھر لی۔ سب چلے گئے تو اُنہوں نے کمدار کو آواز دی۔ اس سے کہا کہ اس کتے کو بھینسوں کے باڑے میں باندھ دے اور آدھ گھنٹہ بعد چمڑے کے چار پانچ لتر مارے۔ اس کے بعد پانی پلائے۔ جب پانی پی لے تو پھر لتر مارے۔ کمدار جٹ آدمی تھا ساری رات لتر پریڈ کرتا رہا۔ صبح وہ خاتون سفیر، پورا عملہ لیے میرے آفس آدھمکیں! میں نے کمدار سے کتا لانے کو کہا۔ جوں ہی کتا کمرے میں داخل ہوا چھلانگ مار کر مالکن کی گود میں جا بیٹھا۔ دم ہلا ہلا کر اس کے ہاتھ اور منہ چاٹنے لگا۔ کبھی تشکر آمیز نظروں سے میری طرف بھی دیکھتا کیونکہ میں نے کمدار سے اس کی رسی چھڑائی تھی۔ سفیر پوچھنے لگی۔ سر آپ نے کیا علاج کیا کہ اچانک یہ ٹھیک ہو گیا میں نے جواب دیا۔ ریشم و اطلس، ائیر کنڈیشن روم اور اعلیٰ خوراک کھا کھا کر یہ خود کو مالک سمجھنے لگا تھا اور اپنے مالک کی پہچان بھول گیا تھا۔ بس اس کا یہ خناس اتارنے کے لیے اس کو کچھ سائیکولوجیکل اور فزیکل ٹریٹمنٹ کی ضرورت تھی وہ دے دی۔ ناو ہی از اوکے! قارئین ِ محترم یہ دانشور اشفاق احمد تھے۔ انہوں نے کس خوبصورتی سے اللہ اور بندے کی بات کی۔ ہمیں سمجھ جانا چاہئیے کہ رب تعالیٰ ہم سے کیوں ناراض ہے۔ ہم حقیقتاً اپنے مالک کو بھول چکے تھے۔ کاش ہم ان وبائی بیماریوں سے کچھ سمجھ جائیں۔ اس وقت دنیا میں بڑے بڑے فرعون اور نمرود بھی شدید پریشانی اور مشکلات میں ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کے ساتھ کیا ہوگیا ہے۔ بہرحال انہیں سمجھنا چاہئیے کہ دنیا میں سپر طاقت صرف ایک ہی ہے اور وہ رب تعالیٰ کی ذات ہے۔ فرض کریں مستقبل میں انہوں نے کچھ اور طرح کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے تو وہ بھی اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی کہ جب تک اس میں اللہ کریم کی رضااور خوشنودی شامل نہ ہو گی اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمارے گناہوں اور غلطیوں کو معاف کرے اور ہم پر اپنا خاص کرم فرمائے۔ آمین ۔