جبکہ دنیا کو رونا جرثومہ کے باعث عالمگیر وبا سے نمٹنے کی خاطر جد وجہد کر ری ہے جس میں عالمی سطح پر بیس لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں، ایک نئی آفت ہمارے خطے کے سر پر منڈلارہی ہے۔ یہ ہے ٹڈی دل کا متوقع حملہ جس سے متعلق اقوام متحدہ نے بھی آگاہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک وزراعت Food and AgricultureOrganization (FAO)کا انتباہ ہے کہ ٹڈی دل کے باعث مشرقی افریقہ میں فصلوں کو تباہ کر دیا اور اب یہی ٹڈی دل جنوبی ایشیاء کی جانب رواں ہے۔ٹڈی دل کی تعداد میں تیزی سے اس وجہ سے اضافہ ہو رہا ہے کہ عالمی موسمیات اور ماحولیات کی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے جبکے باعث سمندری طوفان، بارشوں اور قدرتی آفات میں اضافہ پایا جاتا ہے۔ اسی باعث ٹڈی دل دنیا بھر کے خوراک کے ذخیروں کو نشانہ بنانے کے درپے ہے۔ ٹڈی دل کے ایک مربع میل210,000,000ٹڈی پائی جاتی ہیں جو اتنی زیادہ خوراک کھا جاتی ہیں جو 90,000افراد ایک دن میں تناول فرماتے ہیں۔
راقم اپنے مضامین کے ذریعہ پہلے بھی اس خطرے سے آگاہ کر چکا ہے لیکن چونکہ ہم لوگ کو رونا وبا کی آفت کا مقابلہ کرنے میں اس قدر مشغول ہیں کہ ٹڈی دل کے متوقع حملے کی جانب کم لوگوں کا دھیان گیا۔ٹڈی دل کے حملوں کا تذکرہ قرآن حکیم اور میسحی مذہب کی کتاب انجیل میں بھی ہے اور ان کے حملوں سے انتباہ کیا گیا ۔ پاکستان میں 1961ء میں ٹڈی دل کا سب سے بڑا حملہ ہواتھا ۔اس وقت پاک فضائیہ کے برسٹل فریٹر طیاروں میںبازئووں کے نیچے خصوصی پمپ نصب کرکے فضائی اسپرے سے اس آفت پہ قابو پایا گیا تھا۔ ہمارے دیہات میں کسان ڈھول پیٹ کر ٹڈی دل کو بھگانے کی کوشش کرتے ہیں جس کا خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوتا۔اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک وزراعت نے ٹڈیوں کو سب سے خطرناک منتقل ہونے والے کیڑے قرار دیا ہے۔ کیونکہ ان میں ایک دن میں 90میل تک پرواز کرنے کی صلاحیت ہے اور جہاں سے گذرتے ہیں وہاں آفت بپا کر دیتے ہیں۔ مادہ ٹڈیاں اپنی زندگی جو تین سے پانچ ماہ پہ مشتمل ہے،300انڈے اوسطاً دیتی ہیں۔ یہ ایک ہزار انڈوں کے پوڈPodہوتے ہیں جن میں ہرPodمیں80انڈے ہوتے ہیں جو زیر زمین ایک مربع فٹ کے اندر جمع ہوتے ہیں ۔ماضی میں ایتھیوپبا میں قحط سالی کا سبب ٹڈی دل کا ہو لناک حملہ تھا۔1915ء میں خلافت عثمانیہ کے عہد حکومت میں ٹڈی دل نے فلسطین میں تمام فصلوں اور پودوں کو چاٹ گیا تھا۔ حضرت موسی کے دور میں مصر پہ بھی ٹڈی دل کے حملوں کا واقعہ مشہور ہے۔1973ء میں امریکہ کی ریاست کو لاریڈو میں ٹڈی دل کا خوفناک حملہ ہوا تھا۔ اس آفت سے نمٹنے کی خاطر امریکی نیشنل گارڈ نے آہستہ رفتار سے ترین چلا کران پر سے شعلہ بھرکانے والی بندوق Flame Thrower سے ٹڈی کے حملے کو جلا کر بھسم کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ ٹڈی دل کو دھماکہ خیز مواد سے اڑادینے کی ترکیب بھی ناکام ہوئی تھی۔ ٹڈی دل نہ صرف ان حملوں کو سہہ گئیں بلکہ ہزاروں میل کے رقبہ پہ پھیلی فصلوں کو تباہ کر گئیں۔موجودہ دور میں جب سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے، ابتک کوئی کارگر ترکیب اس خطرے سے نمٹنے میں منظر عام پہ نہیں آئی۔ کچھ سائنس دانوں نے ایسی دوا تیار کرنے کی کوشش کہ جسے خوراک میں ملاکر ٹڈی دل کو کھلا دیا جائے تو اسکی انڈے دینے کی صلاحیت متاثر ہو گی۔ افسوس کہ یہ ترکیب بھی ناکام ہوئی۔ ٹڈی دل برق رفتاری سے اپنی نسل کی افزائش میں مصروف رہتی ہے اور جب تک حکام اس خطرے سے آگاہ ہوتے ہیں، پانی سر سے گذ ر چکا ہوتا ہے۔
جنوبی ایشیاء کے ممالک خصوصاً پاکستان اور بھارت جنہیں ٹڈی دل کے حملے سے زیادہ خطرہ ہے وہاں ناقص بنیادی ڈھانچوں کے باعث اس خطرت سے نمٹنے کی صلاحیت کم ہے۔پاکستان میں جہاں آباد دی کا بڑا حصہ پہلے ہی کورونا وبا کے باعث غزائی عدم تحفظ کا شکار ہے،ٹڈی دل کے حملوںسے مزید تباہی کاسامنا کرے گئی۔ مشرق وسطیٰ اور مشرقی افریقہ جہاں ٹڈی دل کے حملون کے خلاف مناسب مدافعتی کا روایاں سامنے نہیں آسکیں وہاں وسط مارچ میں ماہ ٹڈیوں نے نئے انڈے دئے جنہیں سینے کے بعد اب ٹڈی دل کی نئی فوج حملے کے لئے تیارہے۔رواں سال کے پہلے دوماہ میں بھی ٹڈی دل نے حملہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں بھارت اور پاکستان نے روائتی دشمنی ترک کرکے مشترکہ طورپر ٹڈی دل سے مقابلے کی ترکیب اور حکمت عملی طے کی تھی لیکن پھر دونوں مالک کو رونا جرثومہ کی آفت سے نمٹنے میں مشغول ہوگئے۔روائتی طورپر برصیغر میں ٹڈی دل گرمی میں فعال ہوتے اور اکتوبر تک انکے حملوں کی شدت میں کمی آجاتی لیکن ۔یہاں اپریل کا وسط ہے اور ٹڈی دل کی افرائش میں کمی نہیں ہوئی۔ برصغیر میں جب مون سون کی بارشیں شروع ہوتی ہیں یعنی جون اور جولائی میں بارش اور نمی سے ٹڈی دل کی افرائش میں اضافہ ہوگا اور انکے غول کے غول کالے بادلوں کی مانند فصلوں اور خوراک کے ذخیروں پہ حملہ کرکے انہیں تباہ وبرباد کر دیں گے۔کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ پرنے ، خصوصاً مرغیاں اور بطخیں ٹڈی دل کے خلاف مدافعت میں کامیاب ہوں گی۔ عام خیال تھا کہ بطخیں اوسطاً ایک دن میں200ٹڈیاں ہڑپ کر لیتی ہیں لہذا بطخوں پہ مشتمل فوج تیار کی جائے جوان ٹڈیوں پہ قابو پالے گی۔ افسوس کہ سائنس دانوں نے مزید تحقیق سے پتہ چلایا کہ موجودہ دور کے ٹڈی دل نے اپی قوت مدافعت میں اضافہ کر لیا ہے اور یہ صلاحیت پیدا کرلی ہے کہ جب پرندے اس پہ حملہ کرتے ہیں تو ٹڈی کے جسم سے ایک بدبودار مادّہ خارج ہوتا ہے جسےPhenyle Acetonitrile کہتے ہیں ۔اس ناپاک بدبو کے اثر سے پرندے ٹڈے کی طرف پھٹکتے بھی نہیں۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے تنظیم برائے خوراک اور زراعت FAOمیں ٹڈی دل کے حملوں کے خطرے پہ تحقیق کرنے والوں نے اپنی ماہرانہ رائے میں اندازہ لگایا ہے کہ اگر مدافعتی تدابیر نہ اختیار کی گئیں تو جون /جولائی کے دوران200,000 مربع کلومیٹر علاقہ ٹڈی دل کے حملوں سے متاثر ہوگا جو پاکستان کے خوراک کے ذخیروں پہ حملہ آور ہوگا۔ ایک مرتبہ ٹڈی بالغ ہوجائے تو اسے روکنا تقریبا ناممکن ہے۔ فصلوں پہ جراثیم کش دوائیاں چھڑکنے سے انسانی جانوں اور ماحولیات کو خطرہ لاحق ہے ۔ٹڈی دل کے متو قع حملوں کا پتہ چلانا اور پیشگی اطلاع دنیا مشکل کام ہے۔ ٹڈی مخلوط زندگی بسر کرتے ہیں اور جب موسم اور ماحول سازگار ہوتا ہے تو اچانک حملہ کر دیتے ہیں۔ اس وقت ان کے پر بھی مزید لمبے ہوجاتے ہیں اور ان میں زیادہ طاقت آجاتی ہے۔
محکمہ موسمیات کو اپنی معمول کی سرگرمیوں کے علاوہ ٹڈی دل کے متوقع حملے پہ کڑی نظر رکھنا ہوگی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کر یں کہ کیونکہ یہ آفتیں قیامت کی نشانی ہیں اور یہ بلائیں ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہیں۔ اللہ ہی سازگار ہے جو ہمیں اس آفت سے بچائے۔