الوداع ضیاء شاہد…(1)

بالآخر ضیاء شاہد صاحب بھی چلے گئے،بے شک ہر زندگی نے موت کے انجام کو پہنچنا ہے۔
ان کے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی قسم کی بحث جاری ہوئی اور خبریں اور ضیاء شاہد پر اچھے اور برے تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ایک بات تو طے ہے کہ موجودہ  دور میں ہر شخص کے ساتھ غلطی اور خطا کا احتمال رہتا ہے۔رب کائنات نے نبی اور پیغمبروں کے معاملے کو ایک کامل ترین انسان پر چودہ سو سال پہلے ختم کردیا تھا۔مجھے یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ ضیاء شاہد ایک عام انسان تھے اور ان میں بھی کمیاں کوتاہیاں تھیں بلکہ اسی طرح جیسے میں اور آپ بھی عام انسان ہیں۔
 سچ یہ ہے کہ جس نے خبریں اور ضیاء شاہد کے ساتھ کام کیا اسے پھر کام میں کبھی دشواری نہیں ہوئی۔مجھے کہنے دیجیے کہ تنی ہوئی رسی پر چلتے رہنے کی وہ کیفیت آج بھی بدن میں جھرجھری لے آتی ہے۔
 "چیف صاحب" کے کمرے سے مخصوص ایک گھنٹی جب دفتر میں بجتی تو جانئے بڑے بڑوں کی روح فنا ہو جاتی ۔پہلی مرتبہ  تو ایک دو ماہ کے لئے گھوم گھوم کے خبریں سے واپس چلے گئے کیونکہ اس نئے اخبار میں تو نیوز پرنٹ کا انتظام روزانہ کی بنیاد پر ہوتا تھا تو ہماری تنخواہوں کا کیا ٹھکانہ ہوتا؟واپس جاکر پندرہ سو والی پروف ریڈنگ کی نوکری جائن کرلی،وہ بھی شامی صاحب کی مہربانی کہ ابا کے ہم جماعت ہونے کے ناطے ہم ان سے تھوڑی بہت رعایت لے ہی لیتے تھے۔پھر خبریں میں ہماری واپسی براستہ عباس اطہر (شاہ جی) کے ذریعے ہوئی جب انہوں نے "صداقت" پر راضی برضا ہونے کے بعد لبرٹی پیپر جوائن کیا اور لاہور میں دوپہر کے پہلے کامیاب اخبار کا بیڑہ اٹھایا۔
 "صداقت" کے رشتے سے ہمیں بھی "صحافت " میں راستہ مل گیا ۔دوسرا دن تھا غالبا مارچ یا اپریل کے دن تھے پنج،پنج محل روڈ والے دفتر میں سیڑھیوں کے ساتھ ریسیپشن پر حاضری لگانے کے لئے کھڑا تھا کہ یکایک سیڑھیوں سے شور بلند ہوا اور تھپڑ کی آواز کے ساتھ" مغلئی" لہجے میں مغلظات  جاری ہوئے اتنے میں کوئی لڑھکتا ہوا سیڑھیوں سے گرا اور پیچھے پیچھے ننگے پاؤں ایک صاحب۔میں سہم کر دیوار کے ساتھ لگ گیا کہ خدا جانے کیا آفت ہے، یہ ضیا شاہد المعروف"چیف صاحب"کو دیکھنے کا ہمارا پہلا موقع تھا
یوں کہیے کہ اس روپ میں دیکھنے کا پہلا موقع تھا وگرنہ اس سے پہلے بھی ایک دفعہ ہم مل چکے تھے لیکن یہ وہ ضیاء شاہد تو نہ تھے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے خبریں کے ابتدائی دنوں میں جب ہم نے نوکری کی درخواست کی تو ہمیں دیکھنے سے قطعی متاثر نہیں ہوئے لیکن درخواست پر نظر پڑتے ہی ان کے تاثرات بدل گئے کہنے لگے "یہ درخواست کس نے لکھی ہے" میں نے کہا "جی میں نے "تو کہنے لگے" یہیں میرے سامنے بیٹھ کر دوبارہ لکھ سکتے ہو؟"یوں خوشخطی اور اچھے پیرائے میں لکھی ہوئی درخواست نے ہمارے لیے ہمیشہ ضیا شاہد مرحوم کے ادارے کے دروازے کھولے ۔لاہور میں بیروزگاری سے نجات کے لئے ضیا صاحب کے "سم سم "کو کھولنے کے لئے خوش خطی ہی ہماری کلید ہوا کرتی۔
دوپہر کے اخبار میں جب انکی آمدورفت بڑھی تو مجھے ادراک ہواکہ انہیں کام کی بہت زیادہ سمجھ ہے عباس اطہر نے روزانہ میٹنگ کے لئے خالد چوہدری صاحب کو نامزد کیا تو وہ کہنے لگے کہ میں اکیلا نہیں جاؤں گا تو ان کے ساتھ "چیف صاحب" سے میٹنگ میں جانے کا قرعہ میرے نام نکلا۔ان میٹنگز میں بہت کچھ سمجھنے اور سیکھنے کا موقع ملا۔ بظاہر بہت چھوٹی باتیں خبریت،لے آؤٹ اور سرکولیشن پر کس طرح سے اثر انداز ہوتی ہیں،انہی سے جانا ۔
سب لوگ ان کے غصے سے بہت خائف رہتے تھے لیکن آج میں اپنے تمام دوستوں کو ایک راز کی بات بتاتا ہوں ۔ضیا صاحب کو غلطی پر غصہ آتا تھا اور اگر غلطی تسلیم کرلی جاتی تو بات ختم اور اگر آپ اپنی غلطی کو تسلیم کیے بغیر بحث شروع کردیں گے تو پھر خیر نہیں ہے۔
ایک اور بات کہ وہ میٹنگ میں مصنوعی غصے کی کیفیت طاری کرتے لیکن اگر مقابل نے غلطی تسلیم کرنے کے بجائے بحث شروع کردی تو کب وہ مصنوعی غصہ ،اصلی غصے میں تبدیل ہوجاتا،خود ان کو بھی پتہ نہیں چلتا(جاری ہے)

ای پیپر دی نیشن