سورس رپورٹ

ہماری پولیس ، اینٹی کرپشن ود یگر تفتیشی اداروںکا ایک بدنام ترین ہتھکنڈہ سورس رپورٹ ہے۔ یہ ایک ایسا ظلم ہے جو سالہا سال سے جاری ہے اور جسے حکمران ، سیاستدان ، سیاسی اداروں کے افسران اور بااثر افراد سے لے کر نچلے درجے کے معمولی سرکاری ملازم تک ہر کوئی بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ سورس رپورٹ ایک ایسا قبیح ہتھیار ہے جس کے استعمال سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد اپنی زندگی ، عزت حُرمت ، مال و دولت، بیوی بچوں اور زندگی کے کئی سالوں سے محروم کردئیے گئے ہیں ۔ یہ ایک ایسا مکروہ فعل ہے کہ یہ کسی بھی شخص کی عزت اچھالنے کیلئے کافی ہے ۔ اور پاکستان کے تمام تفتیشی ادارے یہ جانتے ہوئے بھی کہ انکے سورس کی کریڈیبلیٹی کیا ہے ، کردار کیا ہے ، بیٹھنا اُٹھنا کن کے ساتھ ہے ،تعلیم کتنی ہے اور پھر اس کی کتنی رپورٹیں ماضی میں غلط ثابت ہوچکی ہیں ، مگر اس کے باوجوداس پر انحصار یا ساز باز کرتے ہیں۔ اسے باآسانی ختم کیا جاسکتا ہے مگر اسے ختم کرنے کی بجائے ہر دور میں مزید مضبوط کیا جارہا ہے ۔ بڑے بڑے تفتیشی ادارے اسے سورس رپورٹ جبکہ دور افتادہ علاقوں میں بیٹھے پولیس کے نچلے اہلکار اسے ٹاؤٹی کہتے ہیں۔بہاولپور میں تعینات ایک معزز ملازم کی گاڑی چوری ہوتی ہے۔ مذکورہ ملازم قانون کے مطابق تھانہ صدر بہاولپور میں گاڑی چوری کی ایف آئی آر سال رواں میں ہی درج کرواتا ہے ۔ کچھ دن گزرتے ہیں بہاولپور پولیس کا کوئی سورس جو کہ مبیّنہ طور پر کار چور ہے انہیں بتاتا ہے کہ لاہور میں تھانہ رائے ونڈ کے علاقے کا رہائشی فاروق نامی ایک شخص اور اس کا 14سالہ بیٹا ہنزلہ فاروق کار چوری کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک چلاتے ہیں ۔بہاولپور پولیس اپنے کارچور سورس پر مکمل بھروسہ کرتی ہے اور قیدی ذہن کے پولیس اہلکار لاہور روانہ ہوجاتے ہیں ۔ کئی دن ریکی ہوتی ہے پھر اتوار 11 اپریل کو بحریہ ٹاؤن کے علاقے میں دن کے وقت ایک گھر پر ریڈ ہوتی ہے ۔ ریڈ میں تھانہ رائے ونڈ کے اہلکاربھی شامل ہیں مگر کوئی لیڈی پولیس اہلکار نہیں ، دیواریں اور گیٹ پھلانگے جاتے ہیں ، دروازے بجائے جاتے ہیں ۔ نوجوان بیٹیوں کے ساتھ انتہا کی بدتمیزی کی جاتی ہے ۔چار بہنوں کے اکلوتے 14سالہ بھائی اور انکے والد کو گھسیٹے ہوئے پولیس کے ڈالے میں پھینکتے ہیں اور ڈالہ تھانہ رائے ونڈ پہنچتا ہے اور باپ بیٹے کی روانگی کی رپورٹ کے اندراج کے بعد انہیں بہاو لپور پولیس لے جاتی ہے ۔ مذکورہ گھر کے ہمسائے میں ایک طرف جیل خانہ جات کے ڈی آئی جی کا گھر ہے اور دوسری طرف سیف الرحمن صاحب رہتے ہیں۔ پورا محلہ اس واقع پر حیران ہے اور مذکورہ خاندان کی شرافت کی گواہی دیتا ہے ۔سیف الرحمن صاحب جو کہ نوائے وقت کے پرانے قاری ہیں۔ راقم الحروف کے ساتھ رابطہ کرکے ساری بات بتاتے ہیں اور گارنٹی دیتے ہیں کہ مذکورہ شخص انتہا درجے کا شریف آدمی ہے۔
نوائے وقت بہاولپور کے بیورو چیف شاہد بلوچ کو اس ہدایت کے ساتھ اس معاملے کو دیکھنے کا کہا جاتا ہے کہ اگر مذکورہ شخص اس کیس میں رتی بھر بھی ملوث ہو تو آپ نے مدد نہیں کرنی۔ شاہد بلوچ تھانہ صدر بہاولپور پہنچتے ہیں ، پولیس والوں سے ابتدائی معلومات لیتے ہیں اور مجھے بتاتے ہیں کہ یہ جو شخص پکڑا گیا ہے یہ کار چوری کا بہت بڑا گروہ چلاتا ہے کیونکہ پولیس کا یہی مؤقف ہے کہ یہ لوگ پنجاب سے گاڑیاں سمگل کرکے خیبر پختونخواہ میں بیچتے ہیں۔ پولیس کے مطابق یہ معلومات ان کے سورس ضمیر خان نے دی ہیں ۔
اس دوران مدعی مقدمہ بھی تھانے میں رابطہ کرتے ہیں جو کہ ایک معزز آفیسر ہیں اپنے ملازم کو تھانے بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں نے ایف آئی آر میں کسی کا نام نہیں دیا کیا آپ نے گاڑی برآمد کر لی ہے جو بندے اُٹھالائے ہیں ۔ اس دوران ملزم پولیس سے بار بار ایک ہی بات پوچھتا رہا کہ اس کا جرم تو بتا دیں ۔ پولیس جرم کیوں بتاتی ان کے ہاتھ میں تو بہت بڑا مرغا آگیا تھاور وہ تو کسی مردہ ضمیر کے ضمیر خان کی معلومات کو حتمی سمجھ کر اپنی کامیابی کے نشے میں بدمست تھے کہ اے ایس پی بہاولپور جہاں زیب چاچڑ نوائے و قت کے توجہ دلانے پر ازخود تھانہ صدر بہاولپور پہنچ گئے ۔ بالمشافہ تفتیش ہوئی اور مکمل تسلی کے بعد کہا یہ بیٹا باپ کسی کار چوری میں ملوث نہیں اور کم از کم اس مقدمے کی حد تک تو بیگناہ ہیں۔ میں کسی بے گناہ کاچالان نہیں کرسکتا ۔ ہم نے پولیس کا یہ تاثر ختم کرنا ہے کہ پولیس بے گناہ لوگوں کو پکڑتی ہے اور میں یہ گناہ اپنے ذمے نہیں لے سکتا۔ انہوں نے اعظم کلو نامی متعلقہ تھانے کے انسپکٹر سے بھی مشاورت کی اور باپ بیٹے کو بتایا کہ ہماری تفتیش میں آپ بیگناہ ہیں۔ نوائے وقت کے بیورو چیف شاہد بلوچ کا بھی شکریہ ادا کیا کہ آپ نے ایک بیگناہ شخص کی زندگی کو برباد ہونے سے بچا لیااور گارنٹی دے کر کہ اگر کبھی مستقبل میں ضروت پڑی تو بلانے کا وعدہ لے کر (جو کہ پولیس کا روٹین کا طریقہ کار ہے) باپ بیٹے کو رہا کردیا اور نوائے وقت کے بیورو چیف شاہد بلوچ نے باپ بیٹے کو کھانا کھلا کر لاہور روانہ کردیا۔
پولیس کے تمام تر نظام کو ہر مرتبہ محض ایک سورس مفلوج کرکے رکھ دیتا ہے مگر اعلی ترین امتحان پاس کرکے اور اعلیٰ ڈگریاں لیکر بھرتی ہونیوالے سینکڑوں افسران پولیس کی اصلاح کرنے کے دعوے کے ساتھ ریٹائر ہو کر اپنے تناظر میں عزت کے ساتھ گھر تو چلے گئے مگر اس سورس رپورٹ کا جاہلانہ استعمال ترک نہ کروا سکے، شاید انہیں معلوم نہیں اور یقینی طور پر انہیں معلوم نہیں ہوگا کہ روزِ محشر جب ہم سب لوگ پیش ہوں گے تو ہمارے اعمال ناموں میں بہت سے گناہ ایسے بھی سامنے آئیں گے جو ہم سے سرزد نہ ہوئے ہوں گے مگر ہمیں ان کا خمیازہ بھگتنا پڑیگا تب پتہ چلے گا کہ ہماری سورس رپورٹ پرکی جانیو الی کارروائیوں کے نتیجے میں کس طرح سے ہزاروں گھر برباد ہوئے اور لاکھوں لوگوں نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔کتنے شرافت کی زندگی چھوڑ کر گناہوں کی دلدل میں ہمیشہ کیلئے چلے گئے۔پھر وہاں کی کرنسی اور وہاں کا لین دین تو گناہوں اور نیکیوں کا تبادلہ ہے۔ کیسے بچ پائیں گے ؟

ای پیپر دی نیشن