’’ارشاد نامہ ، عجز و شُکر ِباری/ عدالتی انقلاب جاری!‘‘(2)


’’جناب مخدوم علی اور دوسرے دوست ! ‘‘ 
معزز قارئین ! پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل اور سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ جناب مخدوم علی خان کا ارشاد نامہ کے بارے میں یہ مقدمہ ہے کہ ’’ خود نوشت سوانح عمری ایک لحاظ سے ادب کی آسان ترین صنف ہے۔ اِس میں مصنف کو کہانی کی تلاش میں نہ تخیل پرواز کی ضرورت ہوتی ہے ۔’’ ارشاد نامہ‘‘ کے بارے ، قیوم نظامی صاحب کا مقدمہ ، یہ ہے کہ ’’ یہ کتاب رنگا رنگ پھولوں کا گلدستہ ہے ۔
 ’’ ارشاد نامہ ‘‘ ایک حوالے سے ’’ وکالت نامہ ‘‘ بھی ہے اور ’’ سیاست نامہ ‘‘ بھی ، جس سے سیاسی قائدین اور کارکنان استفادہ کرسکتے ہیں !‘‘۔سینئر صحافی حفیظ اُلرحمن قریشی نے اپنے مقدمے میں ’’ ارشاد نامہ ‘‘ کو مصنف کی ایک کھلی کتاب قرار دِیا ہے ۔ مَیں کہہ سکتا ہُوں کہ ’’ چیف جسٹس (ر) پاکستان، جناب ارشاد حسن خان نے نہایت کڑے وقت میں ایک ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ عوام کے اقتدار کی بحالی کے لئے کوئی پر تشدد تحریک چلانا پڑی اور نہ ہی خون خرابہ ہُوا۔ 
’’نظریۂ ضرورت کو پہلا "Dent" !‘‘
معزز قارئین ! ’’ ارشاد نامہ ‘‘ میں برادرِ عزیز و محترم سعید آسی کے دو کالم شامل ہیں جو چیف جسٹس آف پاکستان جناب ارشاد حسن خان کی عدالت میں سیّد ظفر علی شاہ کے مقدمے کے فیصلے سے متعلق تھے اور ’’ نوائے وقت ‘‘ میں شائع ہو چکے ہیں ۔ پہلے کالم کا عنوان ہے کہ’’ نظریۂ ضرورت کو پہلا "Dent"ڈالنے والے جسٹس ارشاد حسن خان ‘‘ ۔ ’’اوکسفرڈ انگلش اُردو ڈکشنری کے مطابق "Dent" کے معنی ہیں ’’ کسی سطح پر ہتھوڑے یا چوٹ وغیرہ سے پڑنے والا گڑھا، پچکن، دندانہ ‘‘۔ 
سعید آسی صاحب کا اپنا مقدمہ ہے کہ ’’ چیف جسٹس ارشاد حسن خان صاحب نے حاضر سروس  ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو پابند کردِیا کہ ’’ تین سال کے اندر ملک کو جمہوریت کی پٹڑی پر ڈال دیں گے اور خود بیرکوں میں واپس جا کردفاع وطن کی اپنی ذمہ داریاں سنبھالیںگے!‘‘۔ 
’’ گردن وِچّ سریا نئیں ! ‘‘ 
جناب ارشاد حسن خان ’’ ککے زئی ‘‘ افغان ہیں ۔ 46 سال سے میرے ایک ’’ ککے زئی ‘‘ دوست سینئر ایڈووکیٹ ، 2002ء سے 2006ء تک ڈپٹی اٹارنی جنرل آف پاکستان ملک ، ایم، پرویز اختر ، جناب ارشاد حسن خان کے بہت بڑے مدّاح ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’ مَیں کسے وِی وڈّے عہدے تے ارشاد حسن خان ہوراں دِی گردن وِچ سریا ؔ (لوہے کی سلاخ ) کدے وِی نئیں ویکھیا ، اُونہاں نے تے اِک مُخلص پاکستانی وانگ دُوجے پاکستانیاں نال شفقت تے محبت دا برتاوا کِیتا اے !‘‘ ۔ 
’’ شاہنامہ اور دوسرے نامے ! ‘‘ 
سب سے پہلے بخارا کے حکمران ’’ سامانی ‘‘ خاندان کی فرمائش پر ،فارسی کے نامور شاعر دقیقی نے ’’شاہنامہ‘‘لکھا، پھر سُلطان محمود غزنوی کے درباری شاعر ابو اُلقاسم فردوسی نے اپنے سُلطان کی خواہش پر ’’ شاہنامہ ‘‘ لکھا اور بعد مُدت جنابِ حفیظ جالندھری (1900ئ۔ 1982ئ) نے ’’ شاہنامہ اسلام‘‘ لکھا۔  
ایرانی ادبیات میں نثر کی چند کتابیں ’’ایرانی بادشاہ کیکائوس بن سکندر کا اپنے دادا کے نام سے لکھا ہُوا ’’قابو س نامہ‘‘ سلجوقی فرماں رواں کی فرمائش پر اُن کے وزیر نظام اُلملک طوسی کا لکھا ہُوا 
’’ سیاست نامہ ‘‘ چوتھی صدی کے شاعر حکیم ناصر خسرو کا ’’ سیاحت نامہ ‘‘ اُنہوں نے فارسی میں خود لکھا۔ 
ہندوستان کے پہلے مُغل بادشاہ ظہیر اُلدّین بابر کی خود نوشت (تزکِ بابری) کہلائی اور اُن کی صاحبزادی گلبدن بیگم نے اپنے بھائی بادشاہ نصیر اُلدّین ہمایوں کے لئے فارسی میں ’’ہمایوں نامہ ‘‘ لکھا۔ ’’ تزکِ جہانگیری ‘‘ مُغل شہنشاہ نور اُلدّین جہانگیر نے فارسی میں اپنی خود نوشت خود لکھی اور شہنشاہ جلال اُلدّین اکبر کا ’’ اکبر نامہ ‘‘ اُن کے وزیر کبیر شیخ ابو الفضل نے لکھا ۔ سِکھوں کے دسویں گورو ، گورو گوبند سنگھ نے مُغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کو فارسی زبان میں لکھ کر ایک منظوم کتاب بھیجی جو ’’ظفر نامہ‘‘ کے نام سے موسوم ہوا۔
’’ ارشاد نامہ اور جاوید نامہ !‘‘ 
معزز قارئین !  سولہویں صدی کے اُردو شاعر بیجا پور سلطنت کے شاعر 
برہان اُلدّین جانم نے ’’ ارشاد نامہ ‘‘ کے عنوان سے اپنی شاعری کا مجموعہ شائع کِیا ۔ 1582ء میں وہ وفات پا گئے۔
 شاعرِ مشرق علاّمہ اقبالؒ کی فارسی تصانیف میں ’’جاوید نامہ‘‘ بھی ہے، جس میں آپ نے اپنے فرزند ، جاوید اقبال کی وساطت سے ، ہر دَور کے مسلمان نوجوانوں کو، باعزّت زندگی بسر کرنے کے راہنما اُصول بتائے تھے ۔ 
’’ نامہ نویسوں کے نامے !‘‘ 
کئی سال پہلے ’’ سون سکیسر‘‘ کے اعوان نامور صحافی عبداُلقادر حسن صاحب کا ’’ سیاست نامہ ‘‘ کے عنوان سے کالم شائع ہوتا رہا، پھر اُنہوں نے ’’ غیر سیاسی باتیں‘‘ کے عنوان سے کالم لکھنا شروع کردِیا،جو اُن کی وفات یکم دسمبر 2020ء تک شائع ہوتا رہا ۔
 مَیںنے 1960ء میں مسلک صحافت اختیار کِیا تھا اور مختلف اخبارات میں مختلف عنوانات سے میرا کالم شائع ہونے لگا۔ 11 جولائی 1973ء کو مَیں نے اپنا روزنامہ ’’ سیاست ‘‘ لاہور جاری کِیا ، پھر مَیں نے ’’سیاست نامہ‘‘ کے عنوان سے اپنا کالم شروع کِیا۔ مختلف خواتین و حضرات ’’ وکالت نامہ ‘‘ ۔ ’’ اعمال نامہ ‘‘ ۔ ’’منظر نامہ ‘‘ ۔
 ’’ عالمی منظر نامہ ‘‘۔ ’’ سیاحت نامہ ‘‘۔ اور اِسی طرح کے عنوانات سے اپنا کالم شائع کر رہے ہیں اور اُن سب کے اپنے اپنے ’’ قارئین ‘‘ ہیں ۔ 
’’ عدالتی انقلاب !‘‘ 
معزز قارئین ! اُن دِنوں میاں ثاقب نثار صاحب چیف جسٹس آف پاکستان تھے ، جب سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچوں جج صاحبان نے متفقہ طور پر آئین کی دفعہ "62-F-1" کے تحت وزیراعظم نواز شریف کو تا حیات نا اہل قرار دے دِیا تھا ۔
 اِس پر 30 جولائی 2017ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ سلام! ۔ ’’عدالتی انقلاب‘‘ ۔ تو شروع ہوگیا ؟‘‘۔پھر آصف سعید خان کھوسہ صاحب نے چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب سنبھالا اور مَیں نے کئی کالموں میں لکھا کہ ’’ عدالتی انقلاب‘‘ تو جاری ہے!‘‘ ۔ 21 دسمبر 2019ء سے جناب گلزار احمد صاحب چیف جسٹس ہیں ، اُن کے دَور میں بھی مَیں نے کئی کالموں میں کہ ’’ عدالتی انقلاب جاری ہے !‘‘۔
 مَیں نے جناب ارشاد حسن خان صاحب کے ’’ ارشاد نامہ ‘‘ میں اُن کا مقدمہ پڑھا تو اب بھی یہی اُمید رکھتا ہوں کہ ’’ عدالتی انقلاب جاری ہے ! ‘‘۔ 
…………………(ختم شد )        

ای پیپر دی نیشن