ندیم اپل
وہ منظر واقع دلگداز تھا جب ڈیوک آف ایڈنبرا شہزادہ فلپ کے تابوت کواس گاڑی پر رکھا گیا جسے انہوں نے خود اپنی زندگی میں تیار کروایا تھا ۔یہ منظر آخری رسومات میں شریک تمام شرکا کے لیے خاصارقت آمیز تھا ۔دعائیہ تقریبات کے آغازسے پہلے برطانوی وقت کے مطابق دوپہرتین بجے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی اس دوران بھی دبی سسکیوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں ۔تقریب کے شروع میں یہ بھی اعلان کر دیا گیا تھا کہ ملکہ برطانیہ اپنی زندگی کے ساتھی ڈیوک آف ایڈبنرا پرنس فلپ کے بعد اپنے خاندان اور قوم کی رہنمائی کریںگی۔اس دل گداز منظر میں دیکھاجاتا رہاکہ پرنس فلپ کے تابوت کے پیچھے انکے خاندان کے افراد چل رہے تھے جن میں چار بچے،شہزادہ ولیم اور ہیری شامل تھے جبکہ میت کوایک لینڈ روور پر قلعہ (کاسل) کے اندرونی ہال سے کچھ فاصلے پر واقع سینٹ جارج چیپل چرچ تک لے جایا گیا۔آخر کار اس طرح سے شہزادہ فلپ(ڈیوک آف ایڈنبرا) کی آخری رسومات بڑی خوش اسلوبی سے ادا کر دی گئیں ۔آخری رسومات سے قبل ہی شاہی محل کے افراد نے خصوصی انتظامات کرنے شروع کردئیے تھے۔ اس سلسلے برطانیہ کی شاہی فیملی نے آخری رسومات کی تقریب میںسب سے آگے رکھی جانیوالی تصویر بھی شیئر کی اس تصویر کا انتخاب شہزادی کیٹ نے کیا تھا۔اس تصویر میں ڈیوک آف ایڈنبرا یعنی شہزادہ فلپ گھر کی چاردیواری کے اندر اپنی فیملی اور پوتوںپوتیوں کے ہمراہ خوشگوار موڈ میں بیٹھے دیکھے جاسکتے ہیں ۔آخری تقریبات کے لیے شہزادہ چارلس کی اہلیہ کمیلاپارکرنے خاص طور پراپنی پسند کے پھولوںکا انتخاب کیا اور اس سلسلے میں اپنے سسر کے لیے ایک افسردہ بیان بھی جاری کیا جو خود انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لکھا تھا۔ملکہ الزبتھ دوئم اپنے شوہر کے انتقال کے چار رو ز بعد سرکاری تقریبات میں دیکھی گئیں ملکہ الزبتھ ہی اس تقریب کی میزبانی کریں گی۔اسی تقریب کے لیے 70سالہ شہزادی این بدھ کے روز عوام کے سامنے آئی جس نے روایتی طور پر سیاہ لباس زیب تن کر رکھا تھاجو خصوصی طور پر اس تقریب کے لیے تیار کیا گیا تھا۔اس موقع پر انہوں نے عوام کے لیے جاری کیے گئے اپنے بیان میں کہا کہ ان کے والد انکے استاد اور سپورٹر بھی تھے اس موقع پرشہزادی این کی آنکھوں میں آنسو صاف دیکھے جا سکتے تھے۔شاہی محل کے اعلان کے مطابق کرونا وائرس کے باعث تقریب کے شرکا کی تعداد صرف 30تک محدود رکھی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آخری رسومات میںصرف شاہی محل کے لوگ ہی شامل ہو سکیںگے۔شہزادہ ولیم کا چھوٹا بھائی شہزادہ ہیری جو شاہی خاندان کو اپنی اہلیہ کے ہمراہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر امریکہ سکونت پذیر ہو چکا ہے وہ بھی چار روز پہلے اپنے دادا کے انتقال کے باعث امریکہ سے برطانیہ پہنچ چکا ہے جس کے بارے میں پہلے خبریںآرہی تھیں شاید اسے آخری رسومات میں شرکت کی اجازت نہیں دی جائے گی وہ چارروز قبل برطانیہ پہنچ کر اپنے بڑے بھائی ولیم کے ساتھ آخری تقریبات کے انتظامات میں مصروف ہو گیا تھا ۔اگر کرونا کی فضا ء نہ ہوتی تو فلپ کی آخری تقریب شاید دنیا کے سب سے بڑی تقریب ہوتی مگر کرونا کے باعث اسے صرف 30افراد تک محدود کر دیا گیا۔
آخری رسومات کے حوالے سے یہ ضروری ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شہزادہ فلپ اور ملکہ کے اس تاریخی رشتہ کاکچھ پس منظر بھی بیان کر دیا جائے جو یقینا قارئین کے لیے معلومات افزاء اور دلچسپی کا باعث ہوگا۔ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم کے شوہر 99 سالہ شہزادہ فلپس 9 اپریل 2021ء کو اپنی 100ویں سالگرہ سے ایک سال قبل فانی دنیا سے رخصت ہوئے۔شہزادہ فلپس کو دنیا بھر میں ایک ایسے شوہر کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو 70 سال تک اپنی اہلیہ کے آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں دکھائی دیے۔شہزادہ فلپس نے ملکہ برطانیہ سے 1947 میں اس وقت شادی کی تھی جب وہ ملکہ نہیں بنی تھیں۔اس وقت شہزادہ فلپس برطانیہ کی شاہی نیوی میں خدمات سر انجام دے رہے تھے اور ان کی بہادری، سچائی اور خوبصورتی سے متاثر ہوکر ملکہ برطانیہ کے والدین نے اپنی بیٹی کا ہاتھ انہیں دیا تھا۔دنیا کے بہت سارے لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ شہزادہ فلپس، جو برطانوی شاہی خاندان کے سب سے اہم والی وارث بنے، دراصل وہ پیدائشی برطانوی نہیں تھے۔برطانوی نشریاتی ’اسکائے نیوز‘ میں شائع ان کی سوانح عمری کے مضمون کے مطابق شہزادہ فلپس دراصل یورپی ملک یونان کے قصبے ’کرفیو آئی لینڈ‘ میں یونانی شاہی خاندان میں 1920 میں جنگ عظیم اول کے اختتام کے فوری بعد پیدا ہوئے۔یہ وہ زمانہ تھا جب یورپ میں ہر طرف جنگ کی تباہ کاریاں مچی ہوئی تھی اور یورپی ممالک دشمنوں کے حملے کے وقت ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے معاہدے کرنے میں مصروف تھے۔شہزادہ فلپس جب ڈیڑھ سال کے ہوئے تو اس وقت کی یونانی بادشاہت کا تختہ الٹ دیا گیا اور شاہی خاندان بڑی مشکلوں سے جان بچا کر فرانس پہنچا۔چھوٹے سے شہزادہ فلپس کو ابتدائی تعلیم کے لیے پیرس کے اسکول میں داخل کروادیا گیا اور کم عمری میں جنگ عظیم دوئم کے آغاز سے قبل وہ فرانس سے برطانیہ منتقل ہوئے اور شاہی بحری فوج میں شمولیت اختیار کی اور بعد ازاں برطانوی شاہی خاندان کے فرد بنے ۔مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ پیدائشی برطانوی نہیں تھے۔یونانی شاہی خاندان کے گھر میں پیدا ہونے والے شہزادہ فلپس کے دادا یورپی ملک ڈنمارک کے شاہی خاندان کے فرد تھے، یہی نہیں بلکہ شہزادہ فلپس کے خاندان کے دیگر یورپی ممالک کے شاہی خاندان سے بھی قریبی رشتے تھے، کیوں کہ دو صدیاں قبل تک کئی یورپی ممالک کے شاہی خاندانوں کی آپس میں شادیاں اور رشتہ داریاں ہوتی رہتی تھیں۔ڈنمارک کے شاہی خاندان کے دادا اور یونانی شہزادے کے بیٹے شہزادہ فلپس کم عمری میں ہی جب برطانوی شاہی بحری فوج میں تھے، تب ہی الزبتھ دوم کے دیوانے ہوگئے۔’ہیلو میگزین‘ میں شائع مضمون کے مطابق جب شہزادہ فلپس نوجوان تھے اور شاہی بحریہ میں خدمات سر انجام دیتے تھے تب انہوں نے پہلی مرتبہ اپنی اہلیہ ایلزبتھ کو دیکھا تھا، جو اس وقت 13 برس کی تھیں۔دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے کے بعد محبت میں گرفتار ہوئے، اس وقت شہزادہ فلپس کو نیوی میں ہونے کی وجہ سے انگلستان سے باہر بھی خدمات کے لیے سفر کرنا پڑتا تھا اور انہوں نے جنگ عظیم دوئم کے دوران برطانوی اتحاد کی جانب سے مختلف ممالک میں جنگی خدمات بھی سرانجام دیں۔’دی گارجین‘ میں شائع شہزادہ فلپس کی زندگی سے متعلق مضمون کے مطابق ان کی ملکہ برطانیہ سے شادی کے 5 سال بعد ان کی اہلیہ ملکہ بنیں، جس کے بعد شہزادہ فلپس کی زندگی ہی تبدیل ہوگئی۔ایک طرح سے شہزادہ فلپس برطانوی شاہی خاندان کے گھر داماد بنے اور پھر ایک صدی کے اندر وہ شاہی محل کے مالک بن گئے اور اب ان کے بیٹے اور پوتے ہی شاہی خاندان کے سلسلے کو آگے بڑھائیں گے۔شہزادہ فلپس کو چار بچے تھے اور شادی کے ایک سال بعد ہی ان کے ہاں پہلے بیٹے شہزادہ چارلس کی پیدائش ہوئی جو اس وقت 72 سال کے ہو چکے ہیں اور وہ بھی تاحال بادشاہ نہیں بن پائے۔ملکہ برطانیہ کے شوہر ہونے کی وجہ سے شہزادہ فلپس کو شاہی خاندان میں انتہائی اہمیت حاصل رہی اور وہ زندگی کے آخری ایام تک 800 فلاحی اداروں کے اعزازی سربراہ رہے۔شہزادہ فلپس اور ملکہ برطانیہ کو چار بچے ہوئے، جن میں سب سے بڑے شہزادہ چارلس، دوسری بیٹی شہزادی اینی، تیسرا بیٹا شہزادہ اینڈریو اور سب سے کم عمر 57 سالہ شہزادہ ایڈورڈ ہیں۔ملکہ برطانیہ سے شہزادہ فلپس کی شادی مرتے دم تک برقرار رہی مگر حیران کن طور پر ان کے چار بچوں میں سے تین کی پہلی شادیاں ناکام ہوئیں مگر ان کے سب سے چھوٹے بیٹے شہزادہ ایڈورڈ کی تاحال ایک ہی شادی ہے۔شہزادہ فلپس کے بڑے بیٹے شہزادہ چارلس کی پہلی شادی لیڈی ڈیانا سے ہوئی تھی جو طلاق پر ختم ہوئی جب کہ ان کے دوسرے بیٹے شہزادہ اینڈریو کی پہلی شادی بھی طلاق پر جب کہ بیٹی شہزادی اینی کی پہلی شادی بھی طلاق پر ختم ہوئی۔شہزادہ فلپس اگرچہ خود بادشاہ نہیں بن پائے مگر ان کے 72 سالہ بیٹے اس وقت ولی عہد ہیں اور وہ 94 سالہ والدہ ملکہ برطانیہ کے بعد تخت پر بیٹھ سکیں گے۔شہزادہ فلپس کی وفات سے قبل شاہی خاندان میں 2002 میں ملکہ برطانیہ کی والدہ کا 101 سال کی عمر میں انتقال ہوا تھا جب کہ اسی سال محض چند ہفتوں کے فرق سے ملکہ برطانیہ کی بہن بھی چل بسی تھیں۔ملکہ برطانیہ کی بہن اور والدہ سے قبل 1997 میں شاہی خاندان سے طلاق کے بعد الگ ہونے والی شہزادی ڈیاناکی ایک ٹریفک حادثے میں ہلاکت ہوئی تھی۔شہزادہ فلپس اگرچہ بظاہر صحت مند تھے مگر 95 سال کی عمر کے بعد ان میں صحت کی بعض پیچیدگیاں دیکھی گئیں اور انہیں وقتا فوقتا ہسپتال داخل کرایا جاتا رہا۔شہزادہ فلپس کو طبیعت میں خرابی کے باعث ہی رواں برس فروری میں لندن کے دو مختلف ہسپتالوں میں تقریبا ایک ماہ تک زیر علاج رکھا گیا تھا۔ہسپتالوں سے مارچ کے وسط میں ڈسچارج ہونے کے دو ہفتوں بعد شہزادہ فلپس 9 اپریل کو 99 سال کی عمر میں چل بسے اور بظاہر ان کی موت مختلف طبی وجوہات کی وجہ سے ہوئی مگر اس کے باوجود شہزادہ فلپس کی محبت نہ صرف برطانوی عوام بلکہ دنیا بھرکے لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے گی۔مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر اس بار کرونا وائرس کی وبا نہ ہوتی تو شہزادہ فلپس کی آخری رسومات میں دنیا بھر کے حکمرانوںکو شرکت کی دعوت دی جاتی اور یہ دنیا کا عظیم ترین تعزیتی اجتماع ہو سکتا تھا مگر کووڈ 19کی وجہ سے تقریب کی مہمانوں کی فہرست محدودکر دی گئی ۔اس موقع پر ملکہ الزبتھ دوئم بڑی افسردہ اور غمگین دکھائی دے رہی تھیں کیونکہ 73سالہ طویل رفاقت کا ٹوٹ جانا یقنا ایک غیر معمولی صدمہ ہے مگر ایک بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ فلپ اور ملکہ کی جوڑی دنیا کی مقبول ترین جوڑی تھی جن کی خوبصورت یادوں کو فراموش کرنے اتنا آسان نہ ہوگا۔ملکہ الزبتھ دوئم کے علاوہ شاہی محل کے جن افراد کو غیر معمولی طور پر سب سے زیادہ غم زدہ پایا گیا ان میں70سالہ شہزادی اینی سرفہرست ہیں جنہوں نے اپنے والدکے انتقال کے بعد کئی گھنٹوں تک خود کو کمرے میںبندرکھا جبکہ شہزادہ چارلس بھی گم سم رہے جو شاید ذہنی طور پر اس صدمے کے لیے تیار نہ تھے مگر اس سے بھی زیادہ صدمہ چھوٹے شہزادے ہیری کو ہوا جو اپنے دادا کے انتقال سے کچھ عرصہ قبل ایک طرح سے ناراض ہو کر ہمیشہ کے لیے شاہی محل چھوڑ گیا تھا اور وہ سمجھتا ہے کہ شاید اس کے دادا ابو نے اس کے شاہی محل چھوڑنے کا صدمہ سب سے زیادہ لیا۔