انسانیت کا دکھ رکھنے والی بلقیس ایدھی دنیا چھوڑ گئیں

عنبرین فاطمہ
عبدالستار ایدھی کی اہلیہ’’ بلقیس ایدھی‘‘  اپنے چاہنے والے ان گنت پاکستانیوں کو سوگوار چھوڑ کر اگلے جہان کو سدھار گئیں۔گزشتہ چند ہفتوں سے وہ کافی علیل تھیں ،رمضان المبارک شروع ہونے سے دو دن قبل علاج کی غرض سے انہیں کراچی کے آغا خان ہسپتال میں داخل کروایا گیا۔ گزرتے وقت کے ساتھ  ان کی حالت تشویشناک ہوتی جا رہی تھی جمعہ کے روز پندرہ اپریل کو بلقیس ایدھی خالق حقیقی سے جا ملیں ۔بلقیس ایدھی عارضہ قلب سمیت دیگر امراض میں مبتلا تھیں۔وزیراعظم پاکستان شہباز شریف، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بلقیس ایدھی کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے مرحومہ کی سماجی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا اور ان کی مغفرت کی دعا کی ۔
بلقیس ایدھی کی عمر چوہتر برس تھی ،کراچی میں پیدا ہوئیں وہیں پلی بڑھیں، آٹھویں جماعت میں انہوں نے ایدھی نرس ٹریننگ سنٹر میں داخلہ لیاعمر میں 22برس چھوٹی بلقیس ایدھی نے عبدالستار ایدھی کے ساتھ 1966میں شادی کی۔ ازداوجی رشتے میں بہت ساری مشکلات بھی پیش آئیں لیکن انہوں نے ان تمام مشکلات کا سامنا کیا اوراپنی زندگی اپنے فلاحی ادارے کے نام وقف کر دی ۔عبدالستار ایدھی کی وفات کے بعد وہ جیسے ٹوٹ کر رہ گئیں تھیں دن رات انہیں یاد کرتی تھیں ہم نے جب ان سے ان کے شوہر کی پانچویں برسی پر انٹرویو کیا تو انہوں نے اس انٹرویو میں کہاکہ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایدھی صاحب میری جان ہی اپنے ساتھ لے گئے ہیں اب دل کو کہیں قرار ہے نہ پل بھر کو سکون،وہ اُس انٹرویو میں کافی افسردہ تھیں اور ایدھی صاحب کو اکثر یاد کرتی تھیں۔ہم نے چونکہ بلقیس ایدھی سے متعدد بار انٹرویو کیا ان کی زبانی بتائی ہوئی کچھ باتیں آپ کے ساتھ شئیر کرتے ہیں۔بلقیس ایدھی  بتاتی تھیں کہ مجھے پڑھائی میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ میں کچھ ایسا کام کروں گی جس سے انسانیت کی خدمت کا موقع مل سکے اسی بات کے پیش نذر میں نے ایدھی نرسنگ سنٹرمیںداخلہ لے لیا اور باقاعدہ طور پرٹریننگ حاصل کرنا شروع کر دی۔یوں میرے کام کا اغاز ہو گیااور میں نے دن رات محنت کی۔اسی دوران مجھے عبدالستار ایدھی کی جانب سے شادی کا پیغام ملا اور یوں ہم دونوں رشتہ ازدواج سے منسلک ہو گئے۔بلقیس ایدھی بتاتی تھیں کہ جب ایدھی فائونڈیشن کی بنیاد رکھی گئی اس وقت ان  لوگوںکے پاس صرف ایک بوسیدہ سی گاڑی ، ایک چھوٹی سی ڈسپنسری تھی اور میٹرنیٹی ہوم تھا جو کہ چھ یا سات بیڈز پر مشتمل تھا اور سال کا پانچ یا چھ ہزار روپیہ چندہ تھا۔لیکن وہ مایوس نہیں ہوئے اور اپنے کام کو جاری رکھا اورآج پوری دنیا میں ایدھی ویلفیئر سنٹرز موجود ہیں۔بلقیس ایدھی بہت ہی مضبوط اعصاب کی مالک تھیں وہ بتاتی تھیں کہ زندگی میںجب بھی مشکل آئی انہوں نے اس مشکل کو سر پر سوار نہیں ہونے دیا وہ بتاتی تھیں کہ میںاس وقت بالکل ٹوٹ گئی تھی جب میرے  شوہر نے دوسری شادی کا ارادہ کیا چونکہ اس وقت میرے 5بچے تھے  اور میں نہیں چاہتی تھی کہ مجھے طلاق ہو لہذا میں نے اپنے شوہر کو تحریری طور پر دوسری شادی کی اجازت دے دی۔ ایدھی کی دوسری شادی تقریباً16برس تک رہی اس کے بعد اس لڑکی نے اپنے ہی ڈرائیور سے شادی لر لی اور ایدھی کو اپنی مرضی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ  کر چلی گئی۔لیکن اس دوران میں نے بہت سارے مصائب کا سامنا کیا میرا اپنا شوہر مجھے اپنے گھر رکھنے کو تیار نہیں تھا لیکن میں نے بھرپور کوشش کی کہ میرا گھر نہ ٹوٹے خدا کو بھی یہ ہی منظور تھا لہذا میرا گھر ٹوٹنے سے بچ گیا اور وہ خاتون جس طرح سے میری زندگی میں آئی اسی طرح سے نکل بھی گئی ۔ بلقیس ایدھی کی ایک بیٹی بھی ایدھی فائونڈیشن سے وابستہ ہیں ان پر بلقیس کو بہت فخر تھا کہا کرتی تھیں کہ میری بیٹی کی شادی ہوئی او رہ ناکام ہو گئی تو اس نے ناکامی کو روگ نہیں بننے دیا اور دوبارہ شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے انسانیت کی خدمت کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ،بلقیس بتاتی تھیں کہ شروع میں میں نے اپنی بیٹی کو دوسری شادی کے لئے رضا مند کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے بارہا انکار کرنے پر میں نے اس موضوع پر بات کرنا چھوڑ دی بلقیس ایدھی کے مطابق ان کی بیٹی کا یہ فیصلہ بہت اچھا تھا اس نے بہادر لڑکی ہونے کا ثبوت دیا جس پر مجھے فخر ہے۔وہ خواتین کے بارے میں کہا کرتی تھیں کہ خواتین کو خدا کی ذات نے بہت ہی باہمت بنایا ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ وہ مشکل سے مشکل حالات کا بخوبی مقابلہ کر لیتی ہیں انہوں نے کہا کہ ایک سمجھدار عورت گھر کی وزیراعظم ہوتی ہے اور وہ گھر کا نظم و نسق بااصول طریقے سے چلاتی ہے جس کی وجہ سے گھر والوں کی زندگی بہت اچھی گزرتی ہے۔ایک ناسمجھدار عورت زندگی اور گھر دونوں کو جہنم بنا کر رکھ دیتی ہے ۔اگر عورت سمجھداری سے کام لے اور گھر داری کا نظام چلائے تو زندگی سہل ہو جاتی ہے۔بلقیس ایدھی نے اپنے شوہر عبدالستار ایدھی کے ساتھ مل کر کئی عشروں تک یتیموں، لاوارثوں اور ضروت مندوں کی نہ صرف غیر مشروط مدد کی تھی بلکہ مرحوم عبدالستاار ایدھی تو لاوارث انسانی لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے نہلا کر ان کی تدفین کا اہتمام بھی کرتے تھے۔انہوں نے پہلے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر اور ان کے انتقال کے بعد اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر مجموعی طور پر چھ عشروں سے بھی زائد عرصے تک انسانیت کی خدمت کی اس دوران لاکھوں ضرورت مندوں میں ان کے مذہب، رنگ، نسل، عمر یا کسی بھی دوسری بنیاد پر کبھی کوئی تفریق نہ کی گئی۔بلقیس ایدھی اپنے شوہر عبدالستار ایدھی کی وفات کے بعد ایدھی فاؤنڈیشن کو دیکھ رہیں تھیں، ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں ہلالِ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔بلقیس ایدھی نہایت سادہ طبیعت کی تھیں دل سے بولتی تھیں انسانیت کا درد رکھتی تھیں آخری وقت تک وہ غریب اور بے سہارا بچوں کا درد رکھتی تھیں ان کی خدمت میں تمام عمر گزاری۔

ای پیپر دی نیشن