جوسلوک خان صاحب نے ان کے ساتھ کیا ہے ایسا یہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں کرتے رہے بلکہ شاید اس سے بھی بدترین مگر جب ان دونوں کے خلاف روائتی یکساں سلوک ہوا تو یہ متحد ہو گئے ۔خان صاحب کو ان کے اتحاد سے قبل یہ ضرور سوچنا چاہئے تھا کہ میرے پاس کتنی اکثریت ہے یا میرا مینڈیٹ کتنا ہے۔ سب سے زیادہ خان صاحب کو ان کے خلاف اکسایا بھی انہی لوگوں نے جو ان دونوں پارٹیوں کو چھوڑ کر آئے تھے ۔پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکن تو اداروں میں اصلاحات اور توانائی کا بحران ختم کرنے کے خواہاں تھے ایسی انتقامی کارروائیوں کے وہ قطعاً حق میں نہیں تھے ۔.خان صاحب کو زیادہ غصہ نواز شریف پر تھا چونکہ جمائمہ خان پر ٹائلزسمگلنگ کا کیس میاں صاحب کے دور کی پیداوار تھا اس کے علاوہ بھی خان صاحب کی اس وقت کی نجی زندگی کے متعلق نوازلیگ نے بہت برا کردار ادا کیا جیسا کہ بے نظیر بھٹو کی ذاتیات پر کیچڑ اچھالنا بھی نواز لیگ کا ہی شاخسانہ تھا جمائمہ سے علیحدگی کی وجہ بھی اس قسم کے معاملات تھے ، چونکہ نواز حکومت کو عمران خان کی سماجی اور فلاحی کاموں کی شہرت سے ڈر تھا کہ کہیں یہ سیاست میں ہی نہ آجائیں عمران خان کے لہجے میں نواز شریف کیلئے تلخ ترین ہونا اسی صورتحال کی عکاسی ہے۔
اب آجائیں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں یہاں خان صاحب نے بھی تو بڑی واضح غلطیاں کی ہیں یعنی ایک رات کے اندھیرے میں فریال تالپور کی گرفتاری اور بدتمیزی، دوسری مریم صفدر کے کراچی ہوٹل میں قیام گاہ پر چھاپہ جس میں باقاعدہ کمرے کے دروازے توڑے گئے اور کیپٹن صفدر کو گرفتار کیا گیا یہ دو واقعات زرداری نواز اتحاد کا سبب بنے یا یوں کہہ لیں خان صاحب کو اسکا بھرپور جواب دینے کا مصمم فیصلہ ہوا اور ہر صورت ان کی حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ ہوا حالانکہ اس سے قبل وہ حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دینے کے حامی تھے۔ پھر کچھ وباء نے ماحول فراہم کردیا اور کچھ خان صاحب کی عالمی معاملات میں دلچسپی اور کردرر ادا کرنے کی تمنا نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔ مثلًا سعودیہ ایران صلح کی کوششیں یکسر اس بات کو فراموش کر دیا کہ یہ کوئی آج یا چند سالوں کا مسئلہ تھوڑی ہے اس کی پوری ایک تاریخ ہے ، پھر مسلم امہ کے اتحاد کا خواب چلیں یہی کافی تھا مشیران نے تو نرگسیت کی انتہا کر دی پوری امت کی قیادت کا سہرا بھی خان صاحب کے سر سجانے کی تمنا اور اس پر باقاعدہ کام شروع کر دیا، بالکل ایسے ہی صدام حسین کی تسبیح، نماز ادائیگی کی تصاویر پاکستان کے ہر چوک محلے میں لگی ہوئی تھیں ۔
آج کل سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ایسا ہی کچھ موبائل سکرینوں پر نظر آرہا تھا اگر کہا جائے کہ خان صاحب بڑی سرعت سے مذہب کارڈ کی طرف رواں دواں تھے تو غلط نہ ہوگا ۔ہمارے ہاں اقتدار ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا نام ہے جونہی کوئی پارٹی اقتدار سے علیحدہ ہوتی ہے یا کی جاتی ہے اسی وقت احتساب کے ادارے بڑی سرعت کے ساتھ حرکت میں آ جاتے ہیں پھر ٹی وی سکرینوں اخبارات میں خوب گرماگرمی نظر آتی ہے ۔چند گرفتاریاں ،عدالتوں میں پیشیاں اور وہاں پوچھے گئے سوالات جوابات کچھ عرصہ خبروں کی زینت بنتے ہیں پھر جب قوم ایک نئے خواب کی طرف روانہ ہوتی ہے تو جیلوں میں قید سیاستدان آہستہ آہستہ باہر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ سب کہتے ہیں ہم انتقامی کارروائی پر یقین نہیں رکھتے اچانک سب کچھ شروع ہو جاتا ہے ۔
اب خان صاحب پہلی دفعہ اقتدار میں آئے تھے بدقسمتی سے مدت پوری نہ کرسکے اور نئے نئے اقتدار سے نکالے گئے ہیں اور بھٹو صاحب کے بعد پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ اقتدار سے جبری رخصتی کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہرایا جا رہا ہے حالانکہ سابقین کے ساتھ بھی امریکہ نے ایسا کیا۔ مجال ہے کہ کس نے نام لینے کی جرأت کی ۔ خان صاحب سارا ملبہ امریکہ پر ڈال رہے ہیں جبکہ صاف نظر آرہا ہے کہ اندرونی طور پر وہ عام آدمی کو ریلیف دینے میں بری طرح ناکام ہو چکے تھے عثمان بزدار کو کیسے کامیاب سمجھا جائے گا وہ وفادار ثابت ہوئے ہیں مگر ایک بہترین طریقے سے حکومت کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ اب خان صاحب دوبارہ اپوزیشن کی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں جس میں ان کا تجربہ پاکستان کے تمام سیاستدانوں سے زیادہ ہے اتنا طویل عرصہ اپوزیشن کی حیثیت میں رہنا ایک ریکارڈ سے کم نہیں لیکن اب وہ زخمی شیر کی طرح میدان میں اُترے ہیں اور ہوسکتا ہے کچھ عرصہ بعد وہ حالات کشیدہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ اسی عرصے میں وہ عوام کو اپنی کارکردگی نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے ذریعے اقتدار سے جبری رخصتی پر قائل کرچکے ہونگے بلکل اسی طرح اتحادی حکومت کیلئے بھی بڑے ہی کٹھن مراحل ہیں کہ کیسے اتنے تھوڑے عرصے میں عوام کو اپنی کارکردگی سے مطمئن کرسکیں اور ہاں عمران خان صاحب کی حکومت نے جو جمع پونجی ساڑھے تین سالوں میں اکٹھی کی تھی کہ عین آخری سال عوام کو بڑے بڑے ریلیف پیکیجز کے ذریعے نوازا جائے گا بدقسمتی سے وہ جمع پونجی موجودہ اتحادی حکومت کے ہاتھ لگ چکی ہے خان صاحب کو زیادہ غصہ اس بات کا بھی ہے۔